مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنے اورایک مسجد ہوتے ہوئے اس کے قریب دوسری مسجد تعمیر کرنے کا حکم
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیانِ شرع متین مسٸلہ ذیل کے بارے میں، کہ ایک محلہ مسجد جوکہ عرصہ 80 سال سے قاٸم ہے۔ (جسکی سنگِ بنیاد ایک بزرگ نامی میاں محمد حسینؒ نے رکھی ہے۔ جوکہ انکی بیٹھک بھی ہے۔
اب کچھ سالوں سے وہ جگہ بیٹھنے کی وجہ سے مسجد کی عمارت میں دراریں آرہی ہیں۔ جسکی بنا پر محلے کے ذمہدار حضرات مسجد ہذہ کو شہيد کر تعمير کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن اُسی محلے کے کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اس مسجد کو شہید کر کے دوسری جگہ صرف 100 میٹر دور نعٸے سرے سے مسجد کو تعمير کیا جاٸے۔ کیونکہ مسجد ہذہ میں عوام کو آنے جانے میں دشواری آتی ہے کہ یہ مسجد راستے سے 50 میٹر دور ہے اور نا ہی اس میں پانی کا انتظام ہوتا ہے۔
اب ان دونوں پارٹیوں کا آپس میں کافی تنازعات کے بعد چند معذیز حضرات نے بطورِ صلاح اور عوام کو متحد کرنے کی غرض سے یہ فيصلہ کیا کہ دونوں پارٹیاں اپنی اپنی مساجد تعمير کریں اور دونوں مساجد کو آباد کرنے کی ذمہداری بھی انہی کے سر ہوگی ۔
حاصلِ مطلوب امر یہ ہے کہ۔۔۔؟
1۔ کیا اس طرح کے تضاد میں مسجد ہذا کو اسی جگہ دوبارہ تعمير کرنا ضروری ہے۔
یا مسجد کو دوسری جگہ منتقل کر تعمير کرنا کا درست ہوگا۔
یا کیا بطور اتفاق صرف 50 میٹر پر دونوں مساجد کا تعمير کرنا شریعت میں کوٸی جواز ہوسکتہ ہے۔
اگر ایسی صورت میں یہ دونوں مساجد تعمير ہو ہی جاتی ہیں تو کیا اس سے مسلمانوں میں اتفاق ہونے کا کوٸی امکان کوٸٕ یا انتشار۔
اور ایسی صورتحال میں دونوں مساجد کا تعمير کرنا اگر شریعت کے خلاف ہوا، تو اس کا ذمہدار کون۔۔۔۔۔؟
1۔ پہلی پارٹی۔۔۔۔؟
2۔ دوسری پارٹی۔۔۔۔؟
3۔ یا اس طرح کا فيصلہ دینے والے حضرات۔
قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ اس مسٸلے میں ہماری رہنمائی فرماتے ہوٸے حکمِ شرع صادر فرماٸیں۔ آپ حضرات کی عین نوازش ہوگی۔
العارض__ ریاض احمد قادری۔
داچھن، تحصيل گول، ضلع رام بن، جموں و کشمیر۔
تاریخ : 20 مٸی 2021 عیسوی۔ بروز جمعرات۔
بمطابق : 08 شوال 1442 ہجری۔
الجواب:
جو جگہ مسجد ہوگئی وہ اب ہمیشہ ہمیش کے لیے مسجد ہی رہے گی، اس کو دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا، اور مسجد کی عمارت اگر ختم بھی ہوجائے تب بھی اس جگہ کا مسجد کی طرح احترام ضروری ہوگا، اور اس جگہ کے لیے مسجد کے احکام ثابت رہیں گے۔کیوں کہ مسجد درودیوار اور منبر ومحراب کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ چیزیں مسجد ہونے کے لیے ضروری ہیں، بلکہ مسجد اس زمین کو کہتے ہیں جو نماز کے لیے وقف ہو۔امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"مسجد صرف اس زمین کا نام ہے جو نماز کیلئے وقف ہو یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اپنی نری خالی زمین مسجد کر دے مسجد ہوجائے گی، مسجد کا احترام اس کےلئے فرض ہوجائے گا۔فتاوٰی عالمگیری میں ہے:رجل لہ ساحۃ لابناء فیہا امر قوما ان یصلوافیہا بجماعۃ ابدا او امرھم بالصلٰوۃ مطلقا ونوی الابد صارت الساحۃ مسجد اکذافی الذخیرۃ وھکذا فی فتاوٰی قاضی خان”
(فتاوی رضویہ جلد ٦ص٣٩٠)
ا س لیے جو لوگ اس قدیم مسجد کے شکستہ ہونے کی وجہ سے اس کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں ان کی نیت بہت بہتر ہے۔ اور جو لوگ اس مسجد کو شہید کرکے اس کے بدلے میں سو میٹر دور مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں، انھیں یہ سمجھایا جائے کہ جو جگہ مسجد ہوگئی اب وہ ہمیشہ مسجد رہے گی، اس کو شہید کرکے غیر آباد چھوڑ دینا بہت بڑا ظلم ہے.
اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: "وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ”( یعنی: اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے ذکر سے روکیں اور اس کے ویران کرنے میں کوشاں ہوں، ان کو تو یہی ہہونچتا تھا کہ اس میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
(سورہ بقرہ: ١١۴)
امام اہلِ سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"مسجد کو اس لئے شہید کرنا کہ وہ جگہ ترک کردیں گے اور دوسری جگہ مسجد بنائیں گے مطلقاً حرام ہےقال تعالٰی:ومن اظلم ممن منع مسٰجد ﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا” (فتاوی رضویہ ج٦ص۴٢٢)
ہاں! اس مسجد کو باقی اور آباد رکھتے ہوئے دوسری مسجد کی تعمیر جائز ہے۔ لیکن ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد اس فاسد نیت سے تعمیر کرنا ناجائز وحرام ہے کہ پہلی مسجد کو ضرر پہونچے اور مسلمانوں میں تفرقہ ہو اور ایسی مسجد کو "مسجدِ ضرار” کہتے ہیں، جس کے بنانے کی مذمت قرآن حکیم میں موجود ہے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز آبادی کے کنارےایک مسجد ہوتے ہوئے اسی آبادی کے بیچ میں دوسری مسجد بنانے کی صورت کا حکم بیان کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:
"مسجد بیچ آبادی میں تعمیر کریں ثواب عظیم پائیں گے، اور اُس پہلی مسجد کا بھی آبادرکھنا فرض ہے ، اس کنارے والے پانچوں وقت اس میں نمازپڑھیں”
(فتاوی رضویہ ج٣ص۵٨٩)
اور "مسجدِ ضرار” کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
” مسجدِضرار وہ مسجد ہے جو ابتداءً افسادفی الدین وتفریق بین المومنین کے لئے بنائی گئی ہو”
(فتاوی رضویہ ج٣ ص۵٨۵)
ایک فتوی میں ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد کی تعمیر کی نیتوں اور ان کے احکام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اگر یہ مسجد انھوں نے بغرض نماز خالص ﷲ عزوجل ہی کے لئے بنائی اگر چہ اس پر باعث باہمی رنجش ہوئی، کہ بسبب رنج ایک جگہ جمع ہونا مناسب نہ جانا اور نماز بے مسجد ادا کرنی نہ چاہی، لہٰذا یہ مسجد بہ نیت بجا آوری نماز ہی بنائی، تو اس کے مسجد ہونے اور اس میں نماز جائز و ثواب ہونے میں کوئی شبہ نہیں ؛لانہ وقف صدرعن اھلہ فی محلہ علی وجھہ۔ اوراس نیت کی حالت میں یہ لوگ جماعت میں پھوٹ ڈالنے والے بھی نہیں ٹھہرسکتے، کہ اُن کا مقصود اپنی نماز با جماعت ادا کرنا ہے ، نہ دوسروں کی جماعت میں تفرقہ ڈالنا ، یہاں تک کہ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اہل محلہ کو جائز ہے کہ بغرضِ نماز ایک مسجد کو دو مسجدیں کرلیں ۔
درمختارمیں ہے:لاھل المحلۃ جعل المسجدین واحدا و عکسہ لصلوۃ لا لدرس او ذکر۔اشباہ میں ہے:لاھل المحلۃ جعل المسجد الواحد مسجدین والاولی ان یکون لکل طائفۃ مؤذن۔
اور ا گر یہ نیت نہ تھی مسجد ﷲ کے لئے نہ بنائی، بلکہ اس سے مقصود اگلی مسجد کو ضرر پہنچانا اور اس کی جماعت کا متفرق کردینا تھا، تو بیشک یہ مسجد نہ ہوئی ، نہ اس میں نماز کی اجازت بلکہ نہ اس کے قائم رکھنے کی اجازت، اور اس صورت میں یہ لوگ ضرور تفریق جماعت مومنین کے وبال میں مبتلاہوئے کہ حرام قطعی وگناہ عظیم ہے۔قال ﷲتعالٰی: والذین اتخذوا مسجدا ضرارا وکفرا وتفریقا بین المؤمنین الآیة۔
مگر نیت امر باطن ہے اور مسلمان پر بد گمانی حرام وکبیرہ، اور ہر گز مسلمان سے متوقع نہیں کہ اس نے ایسی فاسد ملعون نیت سے مسجد بنائی۔قال ﷲ تعالٰی: ولا تقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئِک کان عنہ مسئولا۔
تو بے ثبوتِ کافی شرعی ہرگز اس برُی نیت کا گمان کرنا جائز نہیں بلکہ اسی پہلی نیت پر محمول کریں گے اور مسجد کو مسجد اور اس میں نماز کو جائز ثواب اور اس کی آبادی کو بھی ضرور سمجھیں گے”
(فتاوی رضویہ ج٣ ص ۵٨٦)
حاصل یہ ہے کہ اس قدیم مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا حرام ہے اور اس قدیم مسجد کو باقی اور آباد(یعنی اس میں نماز باجماعت جاری) رکھتے ہوئے دوسری مسجد بنانا جائز ہے۔اور پہلی مسجد کو ضرر پہونچانے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی نیت سے دوسری مسجد کی تعمیر ناجائز وحرام ہے۔ لیکن دوسری مسجد بنانے والوں کے بارے میں بلا دلیلِ شرعی یہ مان لینا بد گمانی ہےکہ انھوں نے دوسری مسجد، پہلی مسجد کو ضرر پہونچانے اور تفرقہ پیدا کرنے لیے تعمیر کی ہے، اور بدگمانی حرام ہے۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی۔
٨/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//٢٠/جون ٢٠٢١ء
1 thought on “مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنے اورایک مسجد ہوتے ہوئے اس کے قریب دوسری مسجد تعمیر کرنے کا حکم”