ویران مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ میرے گاؤں میں ایک مسجد ہےجو بہت پرانی ہے اور وہ مسجد ہندؤں کی آبادی میں ہے اور ہمارے گھروں سے کافی دور ہے اور وہاں پر کوئی مسلمان نہیں ،پرانے زمانے میں کچھ لوگ وہاں پر آباد تھے جس وجہ سے وہاں مسجد بنائی گئی تھی،مگر وہ لوگ اس جگہ کو چھوڑ کر چلے گئے ۔
لہذا اب کسی مسلمان کا گھر وہاں پر نہیں ہے اور آئے دن وہاں ہندوؤں کی طرف سے فسادات ہوتے رہتے ہیں اور مستقبل میں بھی ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
اس کے پیش نظر ہم چاہتے ہیں کہ اس مسجد کو شہید کرکے مسلمانوں کی آبادی میں بنائیں تو کیا یہ شرعی نقطہ نظر سے درست ہے یا نہیں جواب عنایت فرما کر اجر و ثواب کے مستحق ہوں ۔
المستفتی محمد اصغر خان جھارکھنڈ
الجواب بعون الھادی الی الحق والصواب
جس جگہ ایک بار مسجد بن گئی قیامت تک وہ جگہ مسجد ہی رہے گی، مسجد کی زمین کسی بھی صورت میں نہ بدلی جا سکتی ہے، نہ بیچی
جاسکتی ہے ناہی شہید کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے ۔
سوال میں مذکور مسجد کو باقی رکھتے ہوئے آبادی میں دوسری مسجد بنانے کی اجازت ہے،ہاں اگر ساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ پرانی غیر آباد
مسجد کی حرمت وتقدس کی حفاظت کے لئے اس کی چہار دیواری کرادی جائے یا اس کو کسی چیز سے گھیر کر محفوظ کر دیا جائے ۔
فتاوی رضویہ شریف میں ہے :
"مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا اور اس کی زمین پر راستہ یا مکان بنانا سب اشد حرام قطعی ہے اگرچہ اس کے عوض دوسری جگہ سونے کی مسجد بنوا دی جائے” ۔ ( ج ٦ ص ٤٨٥)
امام اہل سنت سے ایسی غیر آباد مسجد کے بارے میں سوال ہوا جو جنگل میں تھی اور ڈر تھا کہ چور ڈاکو اس کا مال وغیرہ اٹھالے جائیں گے تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا :
الجواب: اگر اس مسجد کے آباد رکھنے ، حفاظت کرنے کا کوئی طریقہ نہ ہو اور یوں جنگل میں چھوڑدی جائے گی تو چور ڈاکو متغلب لوگ اس کا مال لے جاویں گے تو جائز ہے کہ اس کا اسباب وہاں سے اٹھا کر دوسری جگہ مسجد بنائیں اور یہ کام ہوشیار اور دیانتدار مسلمانوں کی نگرانی میں ہو ۔
واللہ اعلم”(ج ٦ ص ٤٨٦)
واضح رہے کہ اس فتوے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ صورت میں اس طرح کی مسجد کے اسباب اٹھا کر دوسری مسجد میں لگانے کی اجازت ہے مگر مسجد کی مسجدیت اب بھی باقی رہے گی ، چنانچہ اس سلسلے میں حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ کا یہ تفصیلی فتویٰ ملاحظہ ہو:
” جو مسجد ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہے، اس کی مسجدیت کبھی کسی وقت نہیں جاسکتی، مسجد شہید کردینے سے اس کی مسجدیت باطل نہیں ہوسکتی ہے”
” مسجد کی ابدیت ان بعض کتب معتمدہ کی ان عبارت سے روشن ۔
حاوی قدسی و تنویر الابصار و در مختار میں ہے
” ولو خرب ماحولہ واستغنی عنہ یبقی مسجدا عندالامام ،والثانی أبدا الی قیام الساعۃ و بہ یفتی”
رد المحتار میں ہے:
"قولہ ولو خرب ماحوله الخ أی : ولو مع بقائه عامراو کذا لو خرب ولیس له ما یعمر به وقد استغنی الناس عنه لبناء مسجد آخر”
ارد گرد کے ویران ہونے سے مراد یہ ہے کہ مسجد آباد ہو یا پھر ویران ہوگئی ہو اور اس کو آباد کرنے کے لیے کچھ نہیں، جب کہ لوگوں کو نئی مسجد تعمیر کرنے کی وجہ سے اس کی حاجت نہ ہو۔
اسی میں بحرو فتح و مجتبی و حاوی سے تائیدیں لیتے ہوئے فرمایا:
” قوله عندالامام،والثانی فلا یعود میراثا ولا یجوز نقلہ ونقل ماله الی مسجد آخر سواء کانوا یصلون فیه أولا، ھوالفتوی حاوی القدسی،و اکثر المشایخ علیہ مجتبی، وھو الأوجه فتح آہ، بحر اذا خرب المسجد، و فی الفتاوی اذا خربت القریة التى فيها المسجد، وجعلت مزارع و خرب المسجد ولا یصلی فیه أحد فلا بأس بأن یأخذہ صاحبه و یبیعہ وھو قول محمد ، وعن أبی یوسف لایعود الی ملك البانی ولا الی ملك ورثته وهو مسجد أبداً”
دوسرا قول یہ ہے کہ اس کو میراث نہیں بنا سکتے، اسی طرح اس کو یا اس کے مال کو دوسری مسجد میں بھی نہیں لگا سکتے ہیں ، خواہ لوگ اس میں نماز پڑھتے ہوں یا نہ پڑھتے ہوں، حاوی میں ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے، اور مجتبی میں ہے اکثر مشائخ کا یہی موقف ہے، فتح کا بیان ہے کہ یہی وجہ ہے، بحر میں آیا جب مسجد ویران ہو جائے، جب کہ فتاوی میں مذکور ہوا کہ وہ بستی تباہ ہوجائے جس میں مسجد ہو اور اس کو کھیتوں میں تبدیل کردیا گیا اور کوئی اس میں نماز نہ پڑھتا ہو، تو امام محمد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ مسجد کا بانی اس کو لے سکتا ہے اور بیع بھی جائز ہے، جب کہ امام یوسف رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے کہ وہ مسجد بانی یا اس کے ورثہ کی ملک نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی۔
بحرالرائق پھر شامی میں ہے:
” علم أن الفتوی علی قول محمد فی ألات المسجد و علی قول أبی یوسف فی تابید المسجد ”
معلوم ہوگیا کہ مسجد کا سامان و آلات کے بارے میں امام محمد کے قول پر فتویٰ ہے اور دوام مسجد کے سلسلہ میں امام ابو یوسف کے قول پر ۔
(فتاوی مفتی اعظم ہند ج سوم ص ١٧٧ تا ١٧٩)
فتاوی بحرالعلوم میں ہے :
” جو جگہ ایک بار مسجد ہوگئی قیامت تک کے لیے وہ مسجد ہے،چاہے وہ ویران ہوجائے، فتاوی رضویہ جلد ششم صفحہ 492 میں ایسا ہی لکھ کر فرمایا ” ھوالصحیح و بہ یفتی” یہی صحیح ہے، اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے، اس حالت میں اس کا آباد کرنا واجب اور اس میں آداب مسجد لازم اور اس میں زراعت وغیرہ سے اپنے تصرف میں لانا حرام ہے ۔
تو گاؤں والوں پر لازم ہے کہ نئی مسجد جو بنی اس کو آباد کریں، ساتھ ہی اس ویران مسجد کی مرمت اور صفائی کرکے اس میں نماز بلکہ جماعت قائم کریں، بالخصوص وہ لوگ جو اس ویران مسجد کے آس پاس ہیں نماز پڑھیں واللہ اعلم”(ج ٥ ص ١٢٥)
اسی میں ہے :
” گاؤں میں جو مسجد جس جگہ بن گئی قیامت تک وہ مسجد ہی رہے گی اور گاؤں کے مسلمانوں پر اس کی آبادی ضروری ہے، اس کا پیسہ اور سامان دوسری مسجد میں نہیں لگ سکتا ہے، فقط۔ واللہ اعلم”(فتاوی بحر العلوم ج٥ ص ١١٩)
حاصل کلام یہ کہ اگر صورت حال وہی ہے جو سوال میں مذکور ہے تو قدیم مسجد کی مسجدیت کو باقی رکھتے ہوئے آبادی میں دوسری مسجد بنا سکتے ہیں.
واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
کتبہ : مفتی کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
٢٤ ربیع الثانی ١٤٤٣/ ٢٩ نومبر ٢٠٢١.
الجواب صحیح: مفتی محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی