مسجد سے متعلق زمین بغیر کرایہ دینا کیسا ہے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ ایک مسجد کی زمین میں دکان و رہائش کے لئے گھر بنے ہوئے ہیں،اور کرایہ پر دیئے جاتے ہیں،اور کبھی آفت میں سبھی کرائے داروں کے کرائے بھی معاف ہوتے ہیں، تو ایک عالم صاحب جو کہ مذکورہ مسجد کے امام سابق بھی رہے، پھر بھی بعض خدمات انجام فرما رہے تھے، ان کا انتقال ہوگیا اور ان کے وارثین اس لائق نہیں کہ ان کے ذمہ کرایہ جو باقی ہے ادا کرسکیں، تو اگر معاف کر دیا جائے تو شریعت کا کیا حکم ہے ؟
المستفتی: عظمت علی غوثی پوکھرا نیپال.
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الجواب:
یہاں دو صورتیں ہوسکتی ہیں (١) وہ زمین اور گھر وقف علی المسجد یعنی: مسجد پر وقف ۔
(٢) مسجد کی آمدنی سے اخراجاتِ مسجد کے لیے مسجد کے متولیوں کے ذریعہ خریدے گیے ہوں۔
اب اگر پہلی صورت ہو یعنی وہ زمین اور گھر وقف ہوں تو وقف کرنے والے نے وقف کے وقت جیسا کہا ہو اسی کے مطابق کیا جائے۔یعنی اگر وقف کرنے والے نے یہ کہا ہو کہ اس زمین پر بنے مکانات کو کرایہ پر دے کر اس کرایہ سے حاصل ہونے والی رقم کو مسجد کے اخراجات میں صرف کیا جائے۔اور آفت کے وقت کرایہ داروں سے کرایہ نہ لیا جائے یوں ہی یہ بھی کہا ہو کہ کرایہ کی استطاعت نہ رکھنے والوں سے استطاعت نہ رکھنے کے زمانہ کا کرایہ نہ لیا جائے۔اور وفات کرجانے والےامام صاحب کے بچوں کی یہ حالت ہو کہ وہ کرایہ دینے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ان کو بغیر کرایہ اس وقفی زمین ومکان میں رہائش دی جاسکتی ہے۔یوں ہی اگر بہت قدیم زمانے یہ عمل درآمد جاری ہو جس کا حادث یعنی نیا ہونا معلوم نہ ہو کہ استطاعت نہ رکھنے والوں سے کرایہ نہیں لیا جاتا رہا ہو تو بھی امام صاحب کے بچوں کو بغیر کرایہ رہائش دی جاسکتی ہے۔لیکن اگر نہ تو وقف کرنے والے نے وقتِ وقف، استطاعت نہ رکھنے والوں کو بغیر کرایہ رہائش دینے کی بات کہی ہو اور نہ ہی قدیم سے یہ عمل درآمد جاری ہو کہ استطاعت نہ رکھنے والوں سے کرایہ نہ لیا جاتا رہا ہو تو امام صاحب کے بچوں کے ذمہ کرایہ دینا واجب ہوگا اور اس کو معاف کرنے کا کسی کو اختیار نہ ہوگا؛ کیوں کہ مسجد کے متولیان اورمنتظمین اس چیز کا کرایہ معاف کرسکتے ہیں جس کے وہ مالک ہوں اور وہ زمین و مکان کے مالک نہیں ہیں۔ یوں ہی وقفی زمین ومکان ہونے کی صورت میں اگر آفت کے وقت تمام کرایہ داروں سے کرایہ نہ لینے کی صراحت یا قدیم سے جاری عمل درآمد نہ ثابت ہو تو آفت کے وقت بھی تمام کرایہ داروں سے کرایہ معاف کردینا جائز نہیں ہے۔
اور اگر دوسری صورت ہو یعنی: وہ زمین و مکان وقفی نہ ہوں بلکہ چندہ کرکے یا مسجد کی آمدنی سے مسجد کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بنایے گیے ہوں تو بھی مسجد کے منتظمین کو کرایہ معاف کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ کیوں وہ اس زمین اور اس میں بنے مکانات کے مالک نہیں ہیں۔
البتہ اگر سابق امام کے قابلِ امداد بچوں کی اعانت کے لیے کوئی اہلِ خیر یا چند حضرات مل کر ان کی طرف سے کرایہ کی رقم ادا کردیں۔تو بہت اجر وثواب کا کام ہوگا۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:”حکم شرعی یہ ہے کہ اوقاف میں پہلی نظر شرط واقف پر ہے یہ زمین و دکانیں اس نے جس غرض کےلئے مسجد پر وقف کی ہوں ان میں صرف کیا جائے گا اگرچہ وہ افطاری و شیرینی وروشنی ختم ہو اور اس کے سوا دوسری غرض میں اس کاصرف کرنا حرام حرام سخت حرام اگرچہ وہ بناء مدرسہ دینیہ ہوفان شرط الواقف کنص الشارع صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎ (واقف کی شرط ایسے ہی واجب العمل ہے جیسے شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نص۔ت) (۱ ؎ درمختار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۹۰)حتی کہ اگر اس نے صرف تعمیر مسجد کےلئے وقف کی تو مرمت شکست و ریخت کے سوا مسجد کے لوٹے چٹائی میں بھی صرف نہیں کرسکتے افطاری وغیرہ درکنار، اور اگر مسجد کے مصارف رائجہ فی المساجد کے لئے وقف ہے تو بقدر معہود وشیرینی وروشنی ختم میں صرف جائز افطاری ومدرسہ میں ناجائز۔ نہ اسے تنخواہ مدرسین وغیرہ میں صرف کرسکتے ہیں کہ یہ اشیاء مصارف مسجد سے نہیںولایجوز احداث مرتبۃ فی الواقف فضلا عن الاجنبی البحت (جب خود واقف کےلئے کسی نئی چیز کا احداث وقف میں جائز نہیں تو محض اجنبی شخص کیلئے کیسے ہوسکتا ہے۔ت) اور اگر اس نے ان چیزوں کی بھی صراحۃً اجازت شرائط وقف میں رکھی یا مصارف خیر کی تعمیم کردی یا یوں کہاکہ دیگر مصارف خیر حسب صوابدید متولی، تو ان میں بھی مطلقاً یا حسب صوابدید متولی صرف ہوسکے گا۔
غرض ہر طرح اس کے شرائط کا اتباع کیا جائے گا اور اگر شرائط معلوم نہیں تو اس کے متولیوں کا قدیم سے جو عملدرآمد رہا اس پر نظر ہوگی اگر ہمیشہ سے افطاری وشیرینی وروشنی ختم کل یا بعض میں صرف ہوتا رہا اس میں اب بھی ہوگا ورنہ اصلاً نہیں اور احداث مدرسہ بالکل ناجائز۔فتاوٰی خیریہ وغیرہ معتمدات میں ہے:ان کان للوقف کتاب فی دیوان القضاۃ وھو فی ایدیھم اتبع مافیہ استحسانا، والاینظر الی المعھود من حالہ فیما سبق من الزمان من ان قوامہ کیف کانوایعملون۱؎(ملخصاً)اگر خود وقف کےلئے کوئی تحریر دیوان القضاۃ میں موجود ہے تو متولیوں کو اس کے مندرجات کے مطابق عمل کرنا مستحسن ہے ورنہ قدیم سے حال وقف میں متولیوں کا جو عملدرآمد چلا آرہا ہے اس پر نظر ہوگی(ملخصاً)۔(ت) (۱؎ فتاوٰی خیریہ کتاب الوقف دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۲۰۶)قدیم سے ہونے کے یہ معنی کہ اس کا حدوث معلوم نہ ہو اور اگر معلوم ہے کہ یہ بلا شرط بعدکو حادث ہوا تو قدیم نہیں اگرچہ سوبرس سے ہو اگرچہ نہ معلوم ہو کہ کب سے ہے۔”(فتاوی رضویہ ج٦ص۴٦٨)
ایک دوسرے مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
"جب کہ واقف نے صرف مسجد کے لئے وقف کیا تو وہ مسجد ہی میں صرف ہوگا اس سے مدرسہ نہیں کھول سکتے، نہ خود، باجازت حاکم”۔(فتاوی رضویہ ج٦ص۴۴٢) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی۔بستی۔
٢١/صفر المظفر١۴۴٣ھ//٢٩/ستمبر٢٠٢١ء
https://chat.whatsapp.com/CxPo4i5Nql61bfj9XgJN9b
آن لائن علیمی دارالافتا گروپ سے جڑنے کے لیے لنک پر کلک کریں ۔ خیال رہے جو احباب 1 اور 2 نمبر گروپ میں موجود ہوں ان احباب کو اس میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں۔ عبدالجبار علیمی نیپالی