مسجد کے لیے وقف شدہ زمین میں مدرسہ تعمیر کرنا یا بیچنا جائز نہیں
حضرت مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم و رحمۃ الله وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے بہت سال پہلے اپنی زمین مسجد کےنام وقف کی تھی جبکہ وہاں مسجد موجود ہے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے البتہ رجسٹری کے کاغذات مسجد کے ذمہ داران کے پاس موجود ہے۔
سوال طلب امر یہ ہے کہ مسجد کی اس موقوفہ خالی زمین پر دین کی نشر و اشاعت کی خاطر مدرسہ کی تعمیر کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
نیز مسجد کی موقوفہ زمین کو بغرض اشاعت دین فروخت کرکے اس رقم سے مدرسہ کی تعمیر کرنا کیسا ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر عند الله و عند الناس مامون و مشکور ہوں گے
المستفتی ؛ ریاض احمد رضوی
امام جامع مسجد چکوا، بیر گنیاں سیتامڑھی، بہار۔
7489042857
الجوابــــــــــــــــــــــ
جو زمین جس چیز کے لیے وقف ہوچکی اب اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وقف کو بیچا جا سکتا ہے۔ اس لیے جب زید نے وہ زمین مسجد بنانے کے لیے وقف کردی تو اگرچہ پہلے سے وہاں مسجد موجود ہو وہ زمین مسجد ہی رہے گی اور اس زمین میں نہ تو مدرسہ تعمیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بیچا جاسکتا ہے۔امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"ایک وقف جس غرض کے لئے وقف کیا گیا ہے اسی پر رکھا جائے اس میں تو تغیر نہ ہومگر ہیئت بدل دی جائے مثلاً دکان کو رباط کردیں یا رباط کو دکان،یہ حرام ہے۔عالمگیری میں ہے:لاتجوز تغییر الوقف عن ھیئتہ ۔ نہ کہ سرے سے موقوف علیہ بدل دیا جائے، متعلق مسجد کو مدرسہ میں شامل کرلیا جائے یہ حرام ہے اور سخت حرام ہے۔”
(فتاوی رضویہ ج ٦ص٣٨١) واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔
١٦/ذی الحجہ ١۴۴٣ھ// ١٦/جولائی ٢٠٢٢ء