مسجد کے موٹر سے پانی لینے کا مسئلہ مفتی محمد نظام الدین قادری علیمی مصباحی

مسجد کے موٹر سے پانی لینے کا مسئلہ

حضور مفتی محمد نظام الدین قادری علیمی مصباحی صاحب قبلہ حفظہ اللہ

السلام علیکم ورحمة اللہ تعالی وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان اسلام اس مسئلہ میں کہ ہمارے ایک عزیز ہیں جو صوبہ بہار کے ایک گاؤں کی ایسی مسجد میں امامت فرماتے ہیں جس کے چاروں ارد گرد برادران وطن بسے ہوئے ہیں گرمی کے موسم میں وہاں کا واٹرلیبل بہت ہی نیچے چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے اکثر نل خشک ہوجاتے ہیں وہ برادران وطن اس قدر غریب ہیں کہ وہ پانی کے لئے اپنا انتظام نہیں کرسکتے ہیں ۔ اور وہ مسجد کے موٹر سے پانی لیتے ہیں ۔

لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں ان غریب برادران وطن کو مسجد سے پانی دیناجائز ہے یا نہیں۔ اگر جائز نہیں ہے تو کس طرح انہیں منع کیا جائے جب کہ وہ بہت دنوں سےمسجد سے پانی پیتے چلے آرہے ہیں اور اس عالم میں کہ ملک کے حالات اس قدر ہیں کہ دشمنان اسلام صبح وشام اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں اگر ابھی انہیں پانی لینے سے منع کردیاجائے اور میڈیا والوں کو خبر ہوجائے گی تو وہ سر پر آسمان کھڑا کر لیں ۔ بہرحال وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم شرع سے آگاہ فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

المستفتی محمدابوبکر علیمی مصباحی دارالعلوم فیضان حافظ ملت بدھیانی خلیل آباد سنت کبیر نگر یوپی


الجواب:

سائل نے لکھا ہے کہ ارد گرد کے بسنے والے غیر مسلم بہت دنوں سے مسجد کے موٹر سے پانی لیتے چلے آئے ہیں اگر یہ درست ہے اور مسجد کے لیے موٹر دینے والے نے موٹر دیتے وقت کوئی ایسی بات کہی یا لکھی نہ تھی جس کی وجہ سے خاص مسلمانوں کے لیے پانی لینا متعین ہو تو قدیم عمل در آمد کا اعتبار کرتے ہوئے غیر مسلموں کواس موٹر سے پانی لینے سے روکنا ضروری نہیں ہے ۔ خاص کر اس صورت میں جب کہ روکنے سے عام مسلمانوں کو ضرر پہونچنے کا اندیشہ ہے۔ لیکن احترامِ مسجد کا لحاظ ضروری ہے ، انھیں مسجدِ شرعی کے حدود میں آنے جانے نہ دیا جائے ۔ اور موٹر چلنے میں صرف ہونے والی بجلی یا ڈیزل کے نام پر ان سے معاوضہ بھی لیا جانا چاہیے ۔

            واضح رہے کہ قدرتی آبی ذخائر جیسے سمندر، دریا اور بارش کا پانی مالِ مباح میں آتے ہیں کہ جب تک اس پر کوئی قبضہ کرکے اس کا مالک نہ ہوجائے، ہر شخص ان سے نفع اٹھا سکتا ہے، بلکہ اگر کوئی محنت سے کنواں کھودے تو محض کنواں کھودنے سے اس کنویں کے پانی کا مالک نہ ہوگا اور دوسروں کو بھی اس سے پانی لینے کا حق ہوگا، ہاں! اگر سمندر، یا دریا یا کنویں کا پانی کوئی اپنے برتن میں بھرلے یا برتن خاص پانی بھرنے کے لیے رکھے تو اس پانی کا مالک ہوجائے گا اور اب دوسرا کوئی اس کی رضامندی کے بغیر وہ پانی نہیں لے سکتا۔

         ظاہر یہ ہے کہ موٹر سے نکلنے والا پانی بھی جب تک کسی برتن میں جمع نہ کرلیا جائے مالِ مباح ہے، جس سے منع نہیں کیا جانا چاہیے، امامِ اہلِ سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

"وہ پانی کہ کسی کے مملوک کنویں سے بے اس کی اجازت بلکہ باوصف ممانعت کے بھرا، اس کا پینا وضو وغیرہ میں خرچ کرنا سب جائز ہے ، یہ مغضوب کی حد میں نہیں کہ کنویں کا پانی جب تک کُنویں میں ہے کسی کی مِلک نہیں، آبِ باراں کی طرح مباح وخالص مِلک الٰہ عز جلالہ ہے”

(فتاوی رضویہ ج١ ص۴١٦)

نیز تحریر فرماتے ہیں:

"یونہی کسی کا برتن صحن میں تھا، مینہ برسا، برتن بھر گیا، پانی بھی اس کی ملک نہ ہوا اپنی اصل اباحت پر باقی ہے اگرچہ برتن اور مکان اس کی ملک ہے جو اس پانی کو لے لے، وہی اس کا مالک ہوجائے گا ، اگرچہ برتن کا مالک منع کرتا ہے، ہاں اس کے برتن کا استعمال بے اجازت جائز نہ ہوگا”

(فتاوی رضویہ ج١ ص۴١٧)

ہاں! اگر ان غیر مسلموں سے ضرر کا اندیشہ نہ ہو تو احتیاط اس میں ہے کہ ان کو پانی دینے سے بچا جائے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:

"احتیاط اس میں ہے کہ مسجد کا کنواں ان (یعنی : ہندووں)کے تصرف سے دُور رہے”

(فتاوی رضویہ باضافہ مابین الہلالین ج١ ص۵٧٠)

ھذا ما ظہر لی، واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

تنبیہ: غیر مسلموں کو "برادرانِ وطن” کہنے سے احتراز رہے۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔

٧/ذوالقعدہ١۴۴٢ھ//١٩/جون٢٠٢١ء


زکوٰۃ فطرہ کی رقم مسجد میں لگانے کا حکم

Leave a Reply