کیا مساجد کا انشورنس کرانا جائز ہے؟
سوال: ماریشس کا یہ قانون ہے کہ مسجد میں کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جائے مثلا پھسل کر یا اوپر سے گر کر مر جائے، یا اس کے اوپر
کوئی چیز گر پڑے اور وہ ہلاک ہوجائے پھر اس کے اولیاء کورٹ میں چارہ جوئی کریں تو مسجد پر اس کی ہلاکت کی وجہ سے تاوان کی ادائیگی کا
حکم ہوتا ہے، یہ رقم دس پندرہ لاکھ روپے تک ہوتی ہے یہ قانون بہت پہلے سے ہے لیکن اب تک کسی مسجد کے بارے میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں
ہوا ایسی صورت میں کیا مسجد کا انشورنس (Masjid ka Insurance ) کرانے کی اجازت ہے؟ وہاں دکانوں کا قانون یہی ہے اور دکانوں کا انشورنس
کرانا ضروری ہے اگرخدانخواستہ مسجدوں کے لیے ایسا کوئی قانون آجائے تو کیا کرنا ہوگا؟
الجوابــــــــــــــــــــــــــــ
عموما لوگ مساجد میں احتیاط سے چلتے اور پھسلنے کی جگہوں پر نظر رکھتے ہیں، اس لئے پھسلنے کے باعث عام طور پر کوئی حادثاتی موت
نہیں ہوتی پھر جب وہاں کبھی سوال میں درج قانون پر عمل نہ ہوا اور مسجد سے تاوان نہیں لیا گیا تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ قانون مسجد کی
انتظامیہ کو باخبر رکھنے اور لوگوں کی حفاظت کا خیال رکھنے کے لیے ہے، وہ لازم العمل نہیں، اس لیے فی الحال وہاں پر مساجد کا انشورنس کرانا
جائز نہیں، یہ فی الواقع قمار ہے جو حرام ہے ہاں اگر کبھی وہاں کی حکومت اسے لازم العمل قرار دے تو اس وقت انشورنس کرانا بوجہ ضرورت
شرعیہ جائز ہو گا ۔
فقہاء فرماتے ہیں
” الضرورات تبیح المحظورات ” مسلمانوں کو چاہیے کہ استنجا خانے کے باہر اور وضو خانے کھردرے پتھر وغیرہ کا بنوائیں یا ایسی جگہوں پر پاؤں
سے چپکنے والے پا پوش بچھا دیں تاکہ پھسلنے یا پھر ہلاک ہونے کا خطرہ ہی نہ رہے ۔
واللہ تعالی اعلم
کتبــــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور