مرنے کے بعد روحیں کہاں رہتی ہیں؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ: کیا فرماتے ہیں علمائےدین اس مسئلہ کہ بارے میں کہ مرنے کے بعد انسان کی روحیں کہاں رہتی ہیں،اور کیا وہ دوبارہ جنم لیتی ہیں ،نیز روحیں قبر پر آنے والوں کو پہچان تی ہیں؟
(سائل عبدالرؤف سرگودھا)
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ تعالیٰ و برکاتہ
الجـــــوابــــــــــــ” بعون الملک الوھّاب
دنیا و آخرت کے درمیان ایک اور عالم ہے جس کو برزخ کہتے ہیں مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام انس وجن کی ارواح کو حسبِ مراتب اس میں رہنا ہوتا ہے روح کہیں بھی ہو جسم کے ساتھ اس کا تعلق رہتا ہے قبر پر آنے والے کو پہچانتی ہیں،اور یہ کہنا کہ فلاں کی روح فلاں میں چلی گئی ہے یا اس نے دوبارہ جنم لیا ہے یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے-
(حدیث شریف میں ہے، فاذ امات المؤمنین یخلی بہ بسرح حیث شاء-(یعنی: جب مسلمان مرتا ہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے جائے-
(مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الزہد، حدیث ١٦٥٧١-مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی،جلد١٣،صفحہ٣٥٥)
(ابن ابی الدنیا وبیہقی سعید بن مسیب رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے راوی ہیں، حضرت سلمان فارسی وعبداللہ بن سلام رضی ﷲ تعالٰی عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا، کہا کیا زندے اور مردے بھی ملتے ہیں؟ کہا(نعم اما المومنون فان ارواحھم فی الجنۃ وھی تذھب حیث شاءت-
(یعنی: فرمایا ہاں مسلمان کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں انھیں اختیار ہوتاہے جہاں چاہیں جائیں-
(شعب الایمان باب التوکل والتسلیم، حدیث ١٣٥٥، دارالکتب العلمیہ بیروت،جلد۲،صفحہ١۲١)
(اما م جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ شرح الصدور میں تحریر فرماتے ہیں(رجح ابن البران ارواح الشھداء فی الجنۃ وارواح غیرھم علی افنیۃ القبور فتسرح حیث شاءت-
(یعنی: امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا: راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں اور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں-
(شرح الصدور بحوالہ ابن ابی الدنیا باب مقرالا رواح،خلافت اکیڈمی منگورہ سوات، صفحہ١۰٥)
(سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں، کہ عزیزوں کو اگر تکلیف پہنچتی ہے اس کا ملال میّت کو بھی ہوتا ہے، اموات پر رونے کی ممانعت میں فرمایا کہ جب تم روتے ہو مردہ بھی رونے لگتاہے، تو اسے غمگین نہ کرو-
(فتاویٰ رضویہ جلد۹،صفحہ٦٦۰-مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
(بہار شریعت و الخ فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے، کہ مرنے کے بعد روحیں حسبِ مرتبہ مقاموں میں رہتی ہیں، بعض کی روحیں قبر پر، اور بعض کی زم زم شریف کے کنویں میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی دوسرے آسمان سے لے کر ساتویں آسمان تک، اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قنزیلوں میں، اور بعض کی اعلیٰ علیین میں(یعنی،جنت کے نہایت ہی بلند و بالا مکانات میں، مگر کہیں بھی ہوں اپنے جسم سے ان کا تعلق بدستور باقی رہتا ہے، جو کوئ قبر کے پاس آتا ہے اسے دیکھتے پہچانتے ہیں اور اس کی بات بھی سنتے ہیں، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اس کی مثال(حدیث شریف)میں یوں فرمائی ہے کہ ایک طائر(پرندہ پہلے پنجرے میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا، آئمۂ کرام فرماتے ہیں، ان النفوس القدسیۃ اذاتجردت عن العلائق البدنیۃ اتصلت بالملاء الا علیٰ وترٰی و تسمع الکل کالمشاھد-
(یعنی: بے شک پاک جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہوتی ہیں عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں، اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی، ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں-(شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فتاویٰ عزیزیہ میں فر ما تے ہیں، روح راقُرب و بُدمکانی یکساں است-
(یعنی: روح کے لئے کوئ جگہ دور یا نزدیک نہیں، بلکہ سب جگہ برابر ہے(اور کافروں کی خبیث روحیں بعض کی ان کے مرگھٹ یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہ بر ہُوت میں جو(یمن میں ایک نالہ ہے، بعض کی پہلی دوسری سے لے کر ساتویں زمین تک، بعض کی اس سے بھی نیچے سجین میں(یعنی،جہنم کی ایک وادی کا نام ،اور وہ کہیں بھی ہوں جو اس کی قبر یا مرگھٹ پر آتا ہے اسے دیکھتے پہچانتے بات سنتے ہیں، مگر کہیں آنے جانے کا اختیار نہیں کیونکہ قید ہیں، اورجو یہ خیال کرتا ہے کہ روح کسی دوسرے انسان یا جانور کے جسم میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ کسی آدمی کا بدن ہو یا کسی جانور کا جس کو تناسخ، اور آوا گون کہتے ہیں ،محض باطل اور اس کا ماننا کفر ہے، موت کا معنی روح کاجسم سے جدا ہو جانا ہیں، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو جو روح کو فنا مانے وہ بدمذہب ہے-
(بہار شریعت حصہ1،صفحہ101،تا،104-مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
(فتاویٰ فقیہ ملت،جلد1، صفحہ66-مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم ﷺ
کتبـــــہ :ابورضا محمد عمران عطاری مدنی متخصص مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی سٹی پنجاب پاکستان