مرے گھر غوث کے آنے کی برکت یاد آتی ہے
شہِ بغداد کی ہم کو عنایت یاد آتی ہے
رئیس الاولیاء کی شان و شوکت یاد آتی ہے
بسے ہیں اُن کی ذات پاک میں حسنین کے جلوے
اُنھیں دیکھو تو شہزادوں کی صورت یاد آتی ہے
تجلی آج بھی مِلتی ہے اُس کردار سے ہم کو
نبی کے لاڈلے بیٹے کی سیرت یاد آتی ہے
صحابی تابعی کے بعد ہر رتبہ اُنھیں حاصل
مچل جاتا ہے دل جب اُن کی عظمت یادآتی ہے
ولی جو پہلے آئے ہیں ولی جو بعد میں ہوںگے
سبھی ولیوں میں حضرت کی فضیلت یاد آتی ہے
جِلایا آپ نے مُردوں کو لفظِ قُم بِاِذنی سے
ہمیں مُردے جِلانے کی کرامت یاد آتی ہے
وہ جب چاہیں،جہاں چاہیں،پہنچ جاتے ہیں لمحوں میں
گئے ستّر کے گھر ،ہم کو وہ دعوت یاد آتی ہے
جمال ایسا کہ حسنِ مصطفٰیٰ کی دید ہو جائے
جلال ایسا کہ فاروقی عدالت یاد آتی ہے
وہ اپنے وقت کے صدیق اکبر ہیں صداقت میں
نِڈر ایسے کہ حیدر کی شجاعت یاد آتی ہے
کرم ایسا کہ دے دیں چور کو اَبدال کا منصب
عطا ایسی کہ عثمان کی سخاوت یاد آتی ہے
مُرِیدِی لاَ تَخَف کہہ کر کِیا بـے خوف اپنوں کو
عَزُومٌ قَاتِلٌ سے اُن کی نصرت یاد آتی ہے
چمک اُٹھّے در و دیوار سارا گھر مہک اُٹھّا
مرے گھر غوث کے آنے کی برکت یاد آتی ہے
ٹپکتی ہے فریدی کے قلم سے غوث کی اُلفت
مَیں اُن کا نام لیتا ہوں محبت یاد آتی ہے
از : علامہ مولانا سلمان رضا فریدی مصباحی مسقط عمان