دس رکعت کی منت مانی تو دو،چار کرکے پڑھے یا ایک سلام سے دس؟

دس رکعت کی منت مانی تو دو،چار کرکے پڑھے یا ایک سلام سے دس؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید نے منت مانی کہ میرا فلاں کام پورا ہو جائے گا تو میں دس رکعت نفل نماز ادا کروں گا اور اب کام پورا ہوگیا تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کا دو چار رکعت کر کے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج ہے یا ایک ساتھ ہی ادا کرنا ضروری ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
المستفتی: محمد عاقب رضا فیضی نعیمی

الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسئولہ میں دو دو یا چار چار رکعت کرکے نماز پڑھنے میں شرعاً کچھ حرج نہیں ہاں ایک سلام سے دس رکعتیں پڑھنی مکروہ ہے۔
علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں: "(وتكره الزيادة على أربع في نفل النهار، وعلى ثمان ليلاً بتسليمة) لأنه لم يرد، (والأفضل فيهما الرباع بتسليمة) وقالا في الليل المثني افضل قيل وبه يفتي” اھ (الدر المختار مع رد المحتار ، ج٢، ص٤٥٥، کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل، مطبوعہ دار عالم الکتب الریاض)
یعنی نفل نماز ایک سلام سے دن میں چار رکعت اور رات میں آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے زیادہ مشروع نہیں اور دونوں میں ایک سلام سے چار رکعت پڑھنا افضل ہے اور صاحبین نے فرمایا کہ رات میں دو رکعت افضل ہے کہا گیا ہے کہ اسی پر فتوی ہے۔ واللہ تعالیٰ ورسولہ ﷺ اعلم بالصواب۔

کتبہ:محمد صدام حسین برکاتی فیضی
صدر میرانی دار الافتاء وشیخ الحدیث جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔

Leave a Reply