طلاق کا وعدہ کرنے سے طلاق ہوگی یا نہیں ؟ مفتی محمد ارشاد رضا علیمی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالٰی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرح متین مسئلہ زیل کے بارے میں زید اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے کہ میں تجھے تین دن کے اندر تین طلاق دوں گا پھر تھوڑی دیر گزرنے کے بعد زید نے کہا میں تجھے طلاق دوں گا پھر کہہ رہا ہے میں طلاق دوں گا بار بار اس لفظ کو اس نے دہرایا ہے کئی مرتبہ. دریافت طلب بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق ہو جائے گی یا نہیں
سائل:۔ محمد عباس قریشی نظامی
وعلیکم السلام
باسمه تعالى وتقدس الجواب بعون الملك الوهاب:۔
صورت مسؤلہ میں جو الفاظ(طلاق دوں گا) ذکر کئے گئے ہیں وہ زمانہ مستقل سے تعلق رکھتے ہیں ان سے طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ یہ فی الحال طلاق دینا نہیں بلکہ آئندہ طلاق دینے کا اظہار ہے جبکہ طلاق کے لیے ماضی یا حال کا صیغہ مثلا میں نے طلاق دی یا دیتا ہوں ہونا چاہیے۔ فتاوی رضویہ میں ہے” وعدے سے طلاق نہیں ہوتی۔ جواہر اخلاطی میں ہے: طلاق می کنم بخلاف قوله کنم لأنه يتمحض الاستقبال. طلاق می کنم، حال ہونے کی وجہ سے طلاق ہے اس کے برخلاف طلاق کنم، کہا تو طلاق نہ ہوگی کیونکہ یہ محض استقبال ہے”(ج ١٣ ص ١١٨/رضا فاؤنڈیشن لاہور)
فتاوی امجدیہ میں ہے ” اگر واقعی میں یہی الفاظ کہے تھے کہ طلاق دے دوں گا تو طلاق واقع نہ ہوئی کہ یہ طلاق دینا نہیں ہے بلکہ آئندہ طلاق دینے کا اظہار ہے اور محض اس ارادہ یا وعدہ پر طلاق نہیں ہوتی.
"لان ھذا اللفظ متعین لاستقبال ولا یقع به الطلاق کما فی الفتاویٰ الخیریة وغیرھا”
(فتاوی امجدیہ ج ۲ ص ١٧١/ مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی)والله تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ خادم دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی
١١/شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ مطابق ٢٢/ فروری ٢٠٢۴ء
الجواب صحیح
کمال احمد علیمی نظامی دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی