مسجد یا مدرسہ کے لئے وقف زمین کو بیچ کر اسے نیک کام میں صرف کرنا ؟
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ زید نے اپنی زمین مدرسہ میں دے دیا اور کچھ دنوں تک مدرسہ نہیں بنا ۔ بکر اور دیگر لوگوں نے دوسری جگہ زمین لیکر اپنا مدرسہ بنالیا پھر کچھ دنوں کے بعد زید نے بکر اور دیگر لوگوں سے کہا جو زمین میں نے یعنی زید نے مدرسے کے نام پر دیا تھا اس زمین پر چاہے مدرسہ قائم کرلو یا پھر عید گاہ بنالو تو بکر،زید اور دیگر لوگوں نے کہا عیدگاہ قائم کرلو لیکن جب عیدگاہ بنانے کے لیے اینٹ وغیرہ کا انتظام ہوا تو غیر مسلم لوگوں نے کہا یہ جگہ بنجر ہے جہاں ہمارے مدرسے کی زمین ہے وہاں پہ تو دونوں طرف ہماری زمین ہے اور بیچ میں بنجر ہے ۔ تو غیر مسلم نے کہا ہم یہاں پر مندر قائم کریں گے تو زید جس کی زمین ہے اس نے بکر اور دیگر لوگوں سے کہا کہ یہ زمین بیچ کر کسی نیک کام میں استعمال کر لو تو یہ مدرسے کی زمین بیچ کر کیا ہم یہ روپیہ مسجد میں استعمال کرسکتے ہیں؟
المستفتى:محمد سلمان رضوی تنویری، مقام:بیرا گوتم ضلع بستی یوپی
وعليكم السلام
باسمه تعالى وتقدس
الجواب بعون الملك الوهابــــــ
جب زید نے اپنی زمین مدرسہ کے لیے وقف کردی تو وہ اس کی ملکیت سے نکل گئی اب زید کا یہ کہنا کہ اس میں مدرسہ قائم کر لو یا عیدگاہ تو یہ صحیح نہیں کیونکہ وقف کردہ چیز دوبارہ وقف نہیں ہوسکتی اور چونکہ غیر مسلم اس موقوفہ زمین کو غصب کرکے اس میں مندر بنانا چاہتے ہیں مسلمانوں پر فرض ہے کہ حتی المقدور جائز کوشش صرف کرکے اس زمین کو ظالموں کے قبضہ سے بچائیں ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے "وانما يزول ملك الواقف عن الوقف عند أبى حنيفة رحمه الله تعالى بالقضاء”(ج۲ ص۳۵۰)
اور فتاوی رضویہ شریف میں ہے
"جائداد ملک ہوکر وقف ہوسکتی ہے مگر وقف ٹھہر کر کبھی ملک نہیں ہوسکتی”(ج۶ ص۳۳۵)
نیز اسی میں ہے
"وقف دوبارہ وقف نہیں ہوسکتا”(حوالہ سابق ص ۳۳۷)
نیز اسی میں ہے
"مسلمانوں پر فرض ہے کہ حتی المقدور ہر جائز کوشش حفظ مال وقف ودفع ظلم ظالم میں صرف کریں اور اس میں جتنا وقت یا مال ان کا خرچ ہوگا یا جو کچھ محنت کریں گے مستحق اجر ہوں گے قال تعالی لا یصیبھم ظمأ ولا نصب ولا مخمصة الى قوله تعالى الا كتب لهم به عمل صالح”(حوالہ سابق ص۳۵۰)
اور وقف کردہ زمین وغیرہ کو بیچنا جائز نہیں کیونکہ وقف کی بیع جائز نہیں ہے-
درمختار میں ہے”فاذا تم ولزم لا يملك ولا يعار ولا يرهن” اور "لا يملك” کے تحت ردالمحتار میں ہے”أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك: أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه ولا يعار،ولا يرهن لاقتضائهما الملك”(در مختار مع رد المحتار/ج ۶ ص ۵۳۹)
اورکنز الدقائق میں ہے
"ولا يملك ولا يقسم”(ص ۲۲۵)
اور بہار شریعت میں ہے
"وقف کا حکم یہ ہے کہ نہ خود وقف کرنے والا اس کا مالک ہے نہ دوسرے کو اس کا مالک بنا سکتا ہے نہ اس کو بیع کرسکتا ہے نہ عاریت دے سکتا ہے نہ اس کو رہن رکھ سکتا ہے”(ج ۲ ح ۱۰ ص ۵۳۳ /مكتبة المدينه دعوت اسلامی)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ المتخصص فی الفقه الاسلامى بدار العلوم العليميه
۲۴/ذو القعدہ ۱۴۴۰ھ مطابق ۲۸/جولائی ۲۰۱۹ء
الجواب صحيح : محمد نظام الدین قادری خادم دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
۲۴/ذوالقعدہ ۱۴۴۰ھ مطابق ۲۸/جولائی ۲۰۱۹ء