لاک ڈاؤن میں عیدین کی نماز کا حکم از علامہ کمال احمد نظامی علیمی

لاک ڈاؤن میں عیدین کی نماز کا حکم

السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء اسلام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ موجودہ صورتحال میں ان جگہوں پر نماز عید الاضحیٰ کا کیا حکم ہے کہ جہاں حکومتی سطح پر لاک ڈاؤن لگایا گیا ہے اور تمام عبادت گاہوں میں صرف پانچ افراد کو ہی نماز پڑھنے کی اجازت ہے، تو وہاں کے باقی افراد نماز عید الاضحیٰ اپنے گھر پر پڑھ سکتے ہیں اگر ہاں تو آیا باجماعت ادا کریں گے یا فرداً فرداً؟

اگر نہیں تو پھر کیا کریں؟

برائے مہربانی تشفی بخش جواب عنایت فرمایں اور عند الله ماجور ہوں۔

سائل : محمد ارمان علی قادری علیمی گونڈہ مقیم حال ممبئی


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

الجواب

نماز عیدین کی وہی شرطیں ہیں جو نماز جمعہ کی ہیں، بہار شریعت میں ہے:

"عیدین کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انہیں پر جن پر جمعہ واجب ہے، اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں” (بہار شریعت ،حصہ چہارم، ص ٧٧٩)

نماز جمعہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آدمی قید میں نہ ہو، نہ ہی بادشاہ، چور یا کسی ظالم کا خوف ہو، اگر ایسا ہے تو وہ معذور ہے، اس پر نہ تو جمعہ فرض ہے نہ ہی نماز عیدین، چنانچہ بہار شریعت میں ہے :

” قید میں نہ ہونا مگر جب کہ کسی دین کی وجہ سے قید کیا گیا اور مال دار ہے یعنی ادا کرنے پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے "

مزید اسی میں ہے :

"بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا، مفلس قرض دار کو اگر قید کا خوف ہو تو اس پر فرض نہیں”(بہار شریعت حصّہ چہارم ص ٧٧٢)

مذکورہ بالا دونوں شرطوں سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص قید میں ہو، کسی ظالم کے ظلم یا حاکم وقت کے عتاب وزیادتی کا ڈرہو یا کسی وجہ سے قید میں ڈالے جانے کا خوف ہو تو ایسے شخص پر نماز جمعہ فرض نہیں، تو نماز عیدین بھی واجب نہیں.

لاک ڈاؤن کے رواں دنوں میں حکومتی گائڈ لائنس کے پیش نظر کہیں پر پانچ، کہیں پر پچاس تو کہیں پر مخصوص متعین تعداد میں نماز عید کی اجازت دی گئی ہے، خلاف ورزی کی صورت میں قید وبند، ایف آئی آر اور مقدمات میں پھنسنے کا ڈر ہے، ساتھ ہی پولیس کے ذریعہ بے عزتی کا بھی خوف ہے، ایسے میں آبادی کے اتنے لوگوں پر نماز عید واجب ہے جتنے کی اجازت ہے باقی سے وجوب ساقط ہے،جن سے وجوب ساقط ہے ان کے لیے گھر پر بھی نماز عید اجتماعی یا انفرادی طور سے قائم کرنا درست نہیں کہ عید وجمعہ کی نماز شعار اسلام سے ہے، اس کے مقاصد میں سے ایک عظیم ترین مقصداظہار اجتماعیت بھی ہے، اسی لیے نماز جمعہ وعیدین کا قیام سلطان اسلام یا اس کے نائب یا پھر قاضی شرع کی اجازت پر موقوف ہے، چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے :

"جمعہ وعیدین کی امامت پنجگانہ کی امامت سے بہت خاص ہے امامت پنجگانہ میں صرف اتنا ضرور ہے کہ امام کی طہارت ونماز صحیح ہو قرآن عظیم صحیح پڑھتا ہو بدمزہب نہ ہو فاسق معلن نہ ہو پھر جو کوئی پڑھا دے گا نماز بلا خلل ہو جائے گی بخلاف نماز جمعہ وعیدین کہ ان کے لئے شرط ہے کہ امام خودسلطان اسلام ہو یا اس کا ماذون اور جہاں یہ نہ ہوں تو بضرورت جسے عام مسلمانوں نے جمعہ وعیدین کا امام مقرر کیا ہو کما فی الدرمختاروغیرہ دوسرا شخص اگرچہ کیسا ہی عالم وصالح ہو ان نمازوں کی امامت نہیں کر سکتا اگر کرے گا نماز نہ ہوگی”

(فتاویٰ رضویہ قدیم جلد سوم صفحہ ٨٠١)

بہار شریعت میں ہے :

شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہو سکتا ہے، خواہ وہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دو مسجدوں میں ہو یا زیادہ۔ (درمختار وغیرہ) مگر بلا ضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیا جائے کہ جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے ليے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنا نہ چاہيے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ ناجائز ہے، اس ليے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے، اس کا بیان آگے آتا ہے اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ جاری کرنے میں سُلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں، عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں(بہار شریعت حصّہ چہارم ص٧٦٤)

فتاوی رضویہ شریف میں ہے :

ایک مسجد میں تکرارِ نماز جمعہ ہرگز جائز نہیں "وقد اخطأ بعض العصریین من لکھنؤ فی تجویز ذلک مغتراً بجواز التعدد کما بیناہ فی فتاوانا ۔ جمعہ وعیدین کی امامت مثل نماز پنجگانہ نہیں کہ جسے چاہئے امام کردیجئے بلکہ اُس کے لئے شرط لازم ہے کہ امام ماذون من جہتہ سلطان الاسلام ہو بلاوسطہ یا بالواسطہ”(فتاوی رضویہ ج٣ص٧٠٨)

نیز اسی میں ہے:

"ہاں جہاں ماذونِ سلطان نہ باقی ہو وہاں بضرورت اقامت شعار اجتماع مسلمین کو قائم اذن سلطان قراردیا ہے، یعنی مسلمان متفق ہوکر جسے امام جمعہ مقرر کرلیں وہ مثل امام ماذون من السلطان ہو جائے گا۔درمختار میں ہے:نصب العامۃ الخطیب غیر معتبر مع وجود من ذکر اما مع عد مھم فیجوز للضرورۃ ۔

اور شک نہیں کہ جو امر ضرورۃً جائز رکھا گیا وہ حدضرورت سے تجاوز نہیں کرسکتا۔لما عرف من القاعدۃ المطردۃ الفقھیۃ بل والعقلیۃ ان ماکان بضرورۃ فقدر بقدرھا۔اور مسجد واحد کے لئے وقتِ واحد میں دو امام کی ہرگز ضرورت نہیں، تو جب پہلا امام معیّن جمعہ ہے دوسرا ضرور اُس کی لیاقت سے دور ومہجور تو اُس کے پیچھے نماز جمعہ باطل ومحظور” (ایضا)

معلوم ہوا کہ عید الاضحٰی کی نماز گھر گھر نہیں پڑھ سکتے ہیں، ایسے میں لوگوں کے لیے بہتر ہے کہ نماز عید کے بعد چار رکعت نماز چاشت گھر پر پڑھ لیں، جماعت کے ساتھ یا بغیر جماعت کے، فتاوی رضویہ شریف میں ہے :

"جماعتِ نوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا مذہب معلوم ومشہوراور عامۂ کتب ِمذہب میں مذکورومسطور ہے کہ بلا تداعی مضائقہ نہیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج٧ ص ٤٣٠ ،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

Leave a Reply