قسطوں میں گاڑی خریدنا کیسا ہے ؟
سوال ؟ آجکل بینک کی طرف سے گاڑیاں قسطوں پر مل رہی ہیں کچھ رقم نقد دینی ہوگی باقی ھر مھینے دس دس ھزار دینا ھوگا کل قیمت بھی معلوم ھے کہ آٹھ یا دس لاکھ ھے شریعت کی رو سے جائز ھے یا نھیں ؟
سائل : محمد کامران اشرفی نور باغ مالیگاؤں
محمد زاہد نوری مالیگاؤں
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
اگر کوئی شکل لون پر گاڑی لینے میں ایسی ہو کہ اس میں اصل عقد میں سودی شرط نہ لگی ہو ، تو اس کی مطلقاً اِجازت ہے ،
لیکن اگر اس میں وقت پر قسطیں ادا نہ کرنے کی صورت میں سود دینے کی شرط ہو یا یہ شرط معروف ہو ، تو اس طریقہ پر گاڑی لینا سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے ،
بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنے کا مروجہ معاملہ ناجائز ہے ، اس لئے کہ اس میں صراحۃً سود پایا جاتا ہے ، کیوں کہ بینک خود نہیں بیچتا ، بلکہ سود کا قرض دیتا ہے ، جس کی واپسی قسطوں کے ذریعہ ہوتی ہے ، لیکن اس معاملہ کو دائرۂ جواز میں دو شرطوں کے ساتھ لایا جاسکتا ہے ،
(۱) خود بینک گاڑی کو فروخت کرے ، اور مجلس عقد ہی میں اس کی قیمت طے ہوجائے ، خواہ کم ہو یا زیادہ ،
(۲) قسطیں بر وقت ادا کی جائیں ، اگر قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے زیادہ رقم دینی پڑی ، تو یہ سود ہوجائے گا ، جس کی قطعاً اجازت نہیں ہے ،
وکل شرط لایقتضیہ العقد وفیہ منفعۃ لأحد المتعاقدین الخ یفسدہ۔ (الہدایۃ ۳؍۴۳)
وفي الأشباہ: ویجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔ (الأشباہ والنظائر ۱؍۱۲۶، کتاب النوازل ج ۱۱)
مزید اور سمجھیں کہ
بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا جائز ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ بینک سے یہ طے کرلیں کہ گاڑی کی کُل قیمت کتنی ہے؟ اور یہ کتنی مدت میں ادا کرنی ہے؟ ماہانہ یا سالانہ قسط کی صورت میں کتنی قیمت ادا کرنا ہوگی؟ اُدھار خرید و فرخت کی صورت میں شے کی اصل قیمت میں زیادتی کرنا جائز ہے، یہ سود نہیں، تاہم ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ عائد کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے۔
نقد اور ادھار خرید و فروخت میں فرق کرتے ہوئے امام علاؤ الدین کاسانی فرماتے ہیں:
لامساواة بين النقد والنسيئة لان العين خير من الدين والمعجّل اکثر قيمة من الموجل.
’’نقد اور ادھار برابر نہیں، کیونکہ معین و مقرر چیز قرض سے بہتر ہے اور قیمت کی فوری ادائیگی میعادی قرض والی سے بہتر ہے‘‘۔
علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 187
اُدھار بیچنے کی صورت میں اصل قیمت میں زیادتی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لوشتری شيئا نسيئة لم يبعه مرابحة حتی يبيّن لان للاجل شبهة المبيع وإن لم يکن مبيعا حقيقة لانه مرغوب فيه الاتری ان الثمن قد يزاد لمکان الاجل.
’’اگر ایک چیز قرض پر خریدی، اسے فائدہ لے کر، اس وقت تک آگے نہ بیچے جب تک اس کی وضاحت نہ کر دے کیونکہ مدت، مبیع (بکاؤ مال) کے مشابہ ہے، گو حقیقت میں مبیع نہیں، اس لئے مدت کی رعایت بھی رغبت کا باعث ہوتی ہے، دیکھتے نہیں کہ مدت مقررہ کی وجہ سے کبھی قیمت بڑھ جاتی ہے‘‘۔
علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 224
بیع التقسیط (قسطوں پر خرید و فروخت) کے لیے ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ خریدار نقد لے گا یا اُدھار قسطوں پر، تاکہ اسی کے حساب سے قیمت مقرّر کی جائے۔ ان شرائط کے ساتھ بینک سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں