لون دینا یا لینا کیسا ہے ؟ محمد اشفاق عالم امجدی علیمی
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید اپنی زمین میں بینک کھولنا چاہتا ہے اور اس میں لوگوں کے جمع کیے گئے روپیہ کو لون کے طور پر دینا چاہتا ہے،
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس لون سے کمائے ہوئے پیسے Invest زید کے لئے حلال ہوگا یا حرام؟ اور یہ Income سود ہے یا نہیں جواب عنایت فرمائیں
سائل : بلال الدیں رضوی (مالدہ)
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک العزیز الوھاب
یہ بینکنگ انٹرسٹ کے ساتھ اور لون کا کام سودی کاروبار ہے !
اور سودی کاروبار مسلمان کا مسلمانوں کے ساتھ حلال نہیں ہے!
ہاں اگر زید صرف ہندوستانی کافروں کے ساتھ لون اور بینکنگ کا کام کرے تو جائز ہے اور یہ کمائی حلال بھی ہوگی! کیوں کہ ہندوستانی کفار حربی ہیں ، اور حضرت احمد ملا جیون رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں "ان ھم الا حربی و لا ربا بین المسلم و الحربی” کہ ہندوستانی کفار حربی ہیں اور مسلمان و حربی کے ما بین کوئی سود نہیں, جیسے چاہیں لیں دیں!
ہاں اگر یہاں کی حکومت کے بینکوں سے نفع لیناچاہےتوجائز ہے لیکن اس کو دینا جائز نہیں ، اگر تھوڑا نفع دینے میں اپنا نفع زیاده ہو تو جائز ہے۔جیسا کہ ردالمحتار میں ہے *”الظاھر ان الاباحة یفیدنیل المسلم الزیادة وقد الزم الاصحاب فی الدرس ان مرادھم من حل الربا و القمار ما اذا حصلت الزیادة للمسلم(ردالمحتار، جلد4، ص188)
لہذا بینک یا کسی کمپنی سے لون لیکر اپنا بزنس چلانا اس وقت جائز ہے جبکہ اسکی ضرورت ہو یا اسکی حاجت ہو کہ بغیر اسکے کام نہیں چلے گا یا چلے گا لیکن بہت دشواری سے چلےگا اور یہ صورت حاجت شدیده کی ہے اور اس میں نفع مسلم بھی زیاده ہے تو جائز ہے ۔کہ اس میں بینک کا تھوڑا فائده ہے اور مسلمانوں کا نفع زیادہ ہے۔
اسی طرح فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ "گورنمنٹ کے بینک فاضل مال دینے کی شرط پر قرض لیا تو یہ اس شرط پر ہے کہ بینک کو جو زائد رقم سود دینی پڑتی ہے اس زائد رقم کے برابر یا اس سے زیاده نفع کا حصول یقینی طور پر معلوم ہو جب تو فاضل مال دینے کی شرط پر قرض لینا جائز ہے ورنہ نا جائز”
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء ج2 صفحہ261)
کتبہ:محمد اشفاق عالم امجدی علیمی حفظہ اللّٰہ تعالٰی (بچباری آبادپور کٹیہار بہار)