لڑکی کی اجازت کے بغیر باپ نے نکاح کردیا تو کیا حکم ہے؟ از مفتی محمد نظام الدین قادری

لڑکی کی اجازت کے بغیر باپ نے نکاح کردیا تو کیا حکم ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ شرع مسئلہ ذیل میں کہ ہندہ کا نکاح زید کے ساتھ کیا گیا ماں باپ کی مرضی سے ہندہ کی بلا مرضی سے ، زید نے شبِ زفاف (پہلی رات) میں زبردستی ہندہ کے ساتھ اسکی بغیر مرضی کے مجامعت بھی کی، اسکے دوسرے ہی دن ہندہ نے بکر کے ساتھ بھاگ کر دوسرا نکاح کیا بغیر طلاق و حلالہ کے، اور اب بھی بکر کے ساتھ رہتی ہے اور ایک لڑکی بھی ہے شوہرِ ثانی سے، شوہرِ اول سے طلاق دینے کے لئے کہا بھی گیا ، مگر زید طلاق دینے پر راضی نہیں ہوا ، اب ایسی صورتحال کی طرف رہنمائی فرمائیں از روئے شرع کہ شوہر ثانی اپنی زوجہ کے ساتھ شریعت کے دائرے میں رہکر زندگی بسر کر سکے۔کوئی حوالہ ضرور پیش فرماں دیں کرم ہوگا۔

المستفتی۔ محمد رحمت قادری قنوج 8279828310

الجوابــــــــــــــــــــــــ

اگر نکاح کے وقت ہندہ نابالغہ رہی ہو اور اس کے باپ نے اس کی رضامندی کے بغیر زید سے نکاح کردیا ہو تو یہ نکاح صحیح نافذ اور لازم ہے ۔ زید ہی اس کا شوہر ہے، جب تک وہ طلاق نہ دے اس کا نکاح دوسرے سے ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ اس صورت میں ہندہ پر لازم ہے کہ زید کی بیوی بن کر رہے ۔ہاں! اگر زید طلاق دیدے تو عدت گزرنے کے بعد وہ بکر سے نکاح کرسکتی ہے ۔

اور اگر نکاح کے وقت ہندہ بالغہ رہی ہو اور اس کے باپ نے اس کی مرضی کے بغیر زید سے اس کا نکاح کردیا ہو تو اگر ہندہ نے اس نکاح کو رد کرنے سے پہلے ایسا کوئی کام کیا ہو جو شرع کی نظر میں نکاح پر رضامندی کی دلیل ہو جیسے

(١)مہر مانگنا، یا نفقہ طلب کرنا۔

(٢)نکاح کی مبارک باد قبول کرنا

(٣) نکاح کی خبر سن کر خوشی سے ہنسنا مسکرانا۔

(۴) جہیز کا سامان شوہر کے گھر بھجوانا۔

(۵)شوہر کا بھیجا ہوا مہر لینا۔

(٦)تنہا مکان میں اپنے ساتھ خلوت میں آنے دینا

(٧) اس کے کامِ خدمت میں مشغول ہونا۔

(٨) بلا جبر واکراہ اس کو بدن چھونے دینا، یا بوس وکنار یا جماع کرنے دینا وغیرہ)

تب بھی یہ نکاح لازم ہوگیا اور جب تک زید طلاق نہ دیدے ہندہ کا نکاح کسی دوسرے سے نہیں ہوسکتا ۔

لیکن اگر ایسا ہوا ہو کہ ہندہ کی رضا مندی کے بغیر باپ نے اس کا نکاح کیا ہو اور نکاح سے رضامندی پر دلالت کرنے والے کسی فعل کے پائے جانے سے پہلے ہندہ نے اس نکاح پر ناراضگی ظاہر کردی ہو تو زید سے اس کا نکاح نافذ نہ ہوگا ۔ اور ہندہ کو اپنی مرضی سے کفو کے ساتھ نکاح کا حق حاصل ہوگا ۔ لیکن صورت مسئولہ میں جب کہ زید نے ہندہ سے وطی بھی کرلی اور ظاہر یہ ہے کہ یہ وطی کرنا اس شبہہ کی بنیاد پر تھا کہ ہندہ اس کی بیوی ہے تو ہندہ پر وطی بالشبہہ کی عدت لازم تھی اور اب عدت میں دوسرے دن ہی اس کا بکر سے نکاح کرلینا اگرچہ بکر اس کا کفو بھی ہو صحیح نہ ہوگا ، بلکہ وطی بالشبہہ کی عدت میں صراحةً نکاح کا پیغام دینا بھی جائز نہیں ہے ۔

ہاں! اشارةً نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں ۔ لیکن اگر اس صورت میں ہندہ کا بکر کے ساتھ نکاح وطی بالشبہہ کی عدت گزرجانے کے بعد ہو تو نکاح صحیح ہوگا بشرطے کہ بکر ہندہ کا کفو ہو ۔ اور اگر بکر کفو نہ ہو تب بھی یہ نکاح صحیح نہیں، کیوں کہ یہ بالکل ظاہر بات ہے کہ لڑکی کا خود سے یہ نکاح کرنا اس کے باپ کی رضا کے ساتھ نہ تھا ۔ اور بالغہ لڑکی کا ولی کی پیشگی اجازت کے بغیر غیرِ کفو میں نکاح کرنا صحیح نہیں ہوتا ہے۔

اب ذیل میں حوالے کی عبارتیں درج کی جاتی ہیں: فتاوی عالم گیری میں ہے:

"فَإِنْ زَوَّجَهُمَا (ای: الصغیرٙ او الصغیرةٙ) الْأَبُ وَالْجَدُّ فَلَا خيَارَ لَهُمَا بَعْدَ بُلُوغِهِمَا، وَإِنْ زَوَّجَهُمَا غَيْرُ الْأَبِ وَالْجَدِّ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا الْخِيَارُ إذَا بَلَغَ إنْ شَاءَ أَقَامَ عَلَى النِّكَاحِ، وَإِنْ شَاءَ فَسَخَ وَهَذَا عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ- رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى- وَيُشْتَرَطُ فِيهِ الْقَضَاءُ بِخِلَافِ خِيَارِ الْعِتْقِ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ ۔

(فتاوی عالم گیری بزیادة ما بین الہلالین ج١ص٢٨۵)

امامِ اہلِ سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

"پھر اجازت جس طرح قول سے ہوتی ہے مثلاً عورت خبرِ نکاح سن کرکہے میں نے جائز کیا یا اجازت دی یا راضی ہوئی یا مجھے قبول ہے یا اچھا کیا یا خدا مبارک کرے الٰی غیر ذٰلک من الفاظ الرضا ۔ یوں ہی اس فعل یا حال سے بھی ہو جاتی ہے جس سے رضامندی سمجھی جائے مثلاً عورت اپنا مہر مانگے، یا نفقہ طلب کرے، یا مبارکباد لے، یا خبر نکاح سن کر خوشی سے ہنسے یا مسکرائے، یا اپنا جہیز شوہر کے گھر بھجوائے، یااس کا بھیجا ہوا مہر لے لے، یا اسے بلا جبر واکراہ اپنے ساتھ جماع یا بوس وکنار ومساس کرنے دے، یا تنہا مکان میں اپنے ساتھ خلوت میں آنے دے، یا اس کےکام خدمت میں مشغول ہو جبکہ نکاح سے پہلے اس کی خدمت نہ کیا کرتی ہو۔ ونحو ذلک من کل فعل یدل علی الرضا ۔ ان سب صورتوں میں وہ نکاح کہ موقوف تھا جائز ونافذ ولازم ہوجائے گا_”

(فتاوی رضویہ ج۵ ص١٠۴ ، ١٠۵)

علامہ علاو الدین حصکفی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:

"(وَيُفْتَى) فِي غَيْرِ الْكُفْءِ(بِعَدَمِ جَوَازِهِ أَصْلًا) وَهُوَ الْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى (لِفَسَادِ الزَّمَانِ) فَلَا تَحِلُّ مُطَلَّقَةٌ ثَلَاثًا نَكَحَتْ غَيْرَ كُفْءٍ بِلَا رِضَا وَلِيٍّ بَعْدَ مَعْرِفَتِهِ إيَّاهُ فَلْيُحْفَظْ۔”

(در مختار ج۴ باب الولی)

حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"جو عورت عدت میں ہو اُس کے پاس صراحۃً نکاح کا پیغام دینا حرام ہے اگرچہ نکاح فاسد یا عتق کی عدت میں ہو،اور موت کی عدت ہو تو اشارۃًکہہ سکتے ہیں اور طلاق رجعی یا بائن یا فسخ کی عدت میں اشارۃبھی نہیں کہہ سکتے اور وطی بالشبہہ یا نکاح فاسد کی عدت میں اشارۃً کہہ سکتے ہیں اشارۃً کہنے کی صورت یہ ہے کہ کہے میں نکاح کرنا چاہتاہوں مگر یہ نہ کہے کہ تجھ سے، ورنہ صراحت ہو جائیگی یا کہے میں ایسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں جس میں یہ یہ وصف ہوں اور وہ اوصاف بیان کرے جو اس عورت میں ہیں یا مجھے تجھ جیسی کہاں ملیگی۔”

(بہار شریعت ح٨ص٢۴٦)

حاصل یہ ہے کہ اگر نکاح کے وقت ہندہ بالغہ تھی اور اس نے اپنی اجازت کے بغیر باپ کے کیے ہوئے نکاح کو قول یا فعل سے نافذ کرنے سے پہلے رد کردیا ہو تو یہ نکاح نافذ ہی نہیں ہے اس صورت میں اگر بکر اس کا کفو ہو تو وطی بالشبہہ کی عدت گزارنے کے بعد اس کے ساتھ نکاح صحیح ہوگا یوں ہی اگر کفو نہ ہو تب بھی باپ کی اجازت کے بعد اس کا بکر کے ساتھ نکاح صحیح ہوگا ۔

اور اگر نکاح کو نامنظور کرنے سے پہلے ہندہ کے قول یا فعل سے رضامندی پالی گئی ہو تو یہ نکاح زید کے ساتھ نافذ ہوگیا جب تک زید طلاق نہ دے اس کا نکاح بکر یا کسی سے نہیں ہوسکتا، ہاں! اگر زید طلاق دے دے اور عدت گزر جائے تو بکر کے ساتھ وہ نکاح کرسکتی ہے اور بکر سے نکاح کے لیے حلالہ کی کوئی حاجت نہیں۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبـــہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم جمدا شاہی بستی، یوپی۔

٢٨/ربیع الآخر ١۴۴٣ھ//۴/دسمبر٢٠٢١ء

Leave a Reply