زکوۃ کی رقم کو فقراء و مساکین کو مالک بنانا ضروری ہے؟/ زکوۃ کے مسائل

زکوۃ کی رقم کو فقراء و مساکین کو مالک بنانا ضروری ہے؟

الجوابـــــــــــــــــ

جب زکاۃ کے رقم فقیر یا مسکین کے ہاتھ میں پہنچ جائے اور ساتھ ہی اسے مالک بھی بنا دیا جائے تو مانا جائے گا کہ زکوۃ ادا ہوگئی، ہاں جن فقراء

و مساکین کو شریعت نے زکوۃ دینے سے منع کیا ہے انہیں نہ دیں ورنہ زکوۃ ادا نہ ہوگی، جیسے سید، ہاشمی، ماں، باپ، بیٹا، بیٹی، وغیرہ اصول و

فروع کی یہ زکوٰۃ کے حق دار نہیں نہیں ۔

جوہرہ، تنویر اور عالمگیر ی میں ہے : زکوۃ ادا کرنے میں یہ ضروری ہے کہ جسے دی مالک بنا دیں اباحت کافی نہیں، لہذا مال زکوۃ مسجد میں صرف

کرنا یا اس سے میت کو کفن دینا یا میت کا دین ادا کرنا یا غلام آزاد کرنا، پل، سرائے، سقایہ یا سڑک بنوا دینا، نہر یا کنواں کھودوا دینا، ان افعال میں

خرچ کرنا یا کتاب وغیرہ کوئی چیز خرید کر وقف کر دینا کافی نہیں ہے ۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے. مصرف زکوۃ ہر مسلمان حاجت مند جسے اپنے مال مملوک سے مقدار نصاب پر دسترس نہیں، بشرطیکہ نا ہاشمی ہو نہ اپنا

شوہر ہو، نہ اپنی عورت اگرچہ طلاق مغلظہ دے دی ہو ، جب تک عدت سے باہر نہ آئے، نہ وہ جو اپنی اولاد میں ہے جیسے ماں، باپ دادا، دادی، نانا،

نانی . اگرچہ اصلی اور فروعی رشتے عیاذ باللہ بذریعے زنا ہوں، نہ اپنایا ان پانچ قسموں میں کسی کا مملوک اگرچہ مکاتب ہو، نہ ہی کسی غنی کا

غلام غیر مکاتب، نہ مرد غنی کا نابالغ بچہ، نہ ہاشمی کا آزاد بندہ، اور مسلمان حاجت مند کہنے سے کا فر وغنی پہلے ہی خارج ہو چکے یہ سولہ

شخص ہیں جنہیں زکوۃ دینا جائز نہیں ان کے سوا سب کو روا ۔

واللہ تعالی اعلم ۔

کتبـــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور

Leave a Reply