کیا شوہر اپنی بیوی کو مار سکتا ہے ؟
الجواب بعون الملک الوہاب:
اگر بیوی نافرمانی کرتی ہے، تو اس کو فوراً مارنے یا طلاق دینے کے بجائے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرے، کہ سب سے پہلے بیوی کو اچھے طریقے سے سمجھائے، اگر نہ سمجھے تو بستر الگ کرکے ناراضی کا اظہار کرے، پھر بھی کام نہ چلے تو شریعت نے گھر ٹوٹنے سے بچانے کے لئے معمولی طریقے سے مارنے کی اجازت دی ہے۔
چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے کہ :
چار (4) وجوہات کی بنا پر شوہر کے لیے بیوی کو مارنا جائز ہے :
1- شوہر (اپنے لیے) بناؤ سنگھار کرنے کا حکم دے، مگر عورت نہ کرے ۔
2- شوہر صحبت کرنا چاہے اور وہ نہ کرنے دے جبکہ شرعی مجبوری بھی نہ ہو ۔
3- نماز نہ پڑھے یا جنابت و،حیض کے بعد غسل نہ کرے کیونکہ یہ بھی نماز نہ پڑھنے جیسا ہے ۔
4-مہر کی ادائیگی کے باوجود وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے چلی جائے ۔
(فتاوی قاضی خان کتاب النکاح فصل فی حقوق الزوجیۃ جلد1صفحہ 203 مکتبہ حقانیہ پشاور)
یادرہے! ان چار صورتوں میں مارنا صرف جائز ہے، واجب نہیں، بلکہ نہ مارنا افضل ہے ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "مارنا مباح (جائز) ہے، لیکن نہ مارنا افضل ہے. البتہ اتنا نہ مارے کہ ہلاکت تک پہنچا دے، بلکہ بدن پر الگ الگ مقام پر مارے، ایک ہی جگہ نہ مارے اور چہرے (اور سر) پر مارنے سے بچے، بُنے ہوئے رومال یا ہاتھ سے مارے، کوڑا اور ڈ نڈا استعمال نہ کیا جائے، الغرض ہلکے سے ہلکا طریقہ اختیار کیا جائے”۔
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں پہلے سمجھانے کا حکم دیا، پھر بستروں سے علیحدگی کو بیان کیا اور آخر میں مارنے کی اجازت دی تو یہ اس بات پر صراحۃً تنبیہ ہے کہ نرمی سے غرض حاصل ہو جائے تو اسی پر اکتفا لازم ہے، سختی اختیار کرنا جائز نہیں.
(التفسیر الکبیر جلد4 صفحہ 72 پارہ پانچ النساء تحت الآیۃ :34 دار احیاء التراث العربی 1420ھ)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی