کیا حضور نے کبھی بذاتِ خود اذان دی ہے ؟

کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بذاتِ خود اذان دی ہے ؟

الجواب بعون الملک الوہاب :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بچے کے کان میں اذان دینا تو یقینی طور پر ثابت ہے، اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں، بالاتفاق آپ صلی الله عليه وسلم نے امام حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان دی اور ایک روایت کے مطابق امام حسین رضی اللہ عنہ کے کان میں بھی اذان دی ۔

چنانچہ ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ :

"رأیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم أذّن في اُذن الحسن بن علي حین ولدته فاطمة بالصلاة‘‘

یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو جنا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن کے کان میں نماز والی اذان دی ۔

(سنن ابی داؤد جلد دوم صفحہ جلد دوم صفحہ 696 میر محمد، جامع ترمذي جلد اول)

اسی طرح بالاتفاق حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کو اذان سکھانے کے لئے بھی اذان دی ۔

المختصر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کان میں اور سکھانے کیلیے اذان دینا تو ثابت ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے اذان دی یا نہیں؟ اس بارے میں علماے کرام کا اختلاف ہے۔

اس بارے میں علماے کرام کے تین طرح کے اقوال ہیں :

1- امام محی الدین نووی، امام تاج الدین سبکی، امام جلال الدین سیوطی، امام ابن حجر مکی، علامہ علاء الدین حصکفی، علامہ ابن عابدین شامی، امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اور علامہ رافعی رحمۃ اللہ علیھم، وغیرہم اس بات کہ قائل ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دورانِ سفر نماز کے لیے ایک مرتبہ اذان دی ہے ۔

یہ علماےکرام جامع الترمذی کی اس روایت سے دلیل پکڑتے ہیں جس میں "اذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان دی) کے الفاظ ہیں ۔

چنانچہ حضرت یَعْلیٰ بِنْ مُرَّہْ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :

"أنّهم کانوا مع النّبيّ صلی اللّٰه علیه وسلم في سفر فانتهوا إلی مضیق، فحضرت الصلاة، فمطروا السمآء من فوقهم والبلة من أسفل منهم، فأذن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم وهو علی راحلته، وأقام، فتقدم علی راحلته، فصلی بهم، یؤمی إیماءً، یجعل السجود أخفض من الرکوع‘‘

یعنی وہ ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ ایک تنگ جگہ میں پہنچے، پس جب نماز کا وقت ہوا تو ان کے اوپر سے بارش شروع ہوگئی، اور ان کے نیچے کیچڑ ہوگیا، تو رسول اللہ صلى الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سواری پر اذان دی اور اقامت کہی، پھر اپنے جانور پر کچھ آگے بڑھے اور اشارے سے اس طرح ان کو نماز پڑھائی کہ سجدے کے لئے رکوع سے تھوڑا زیارہ جھکتے ۔

(جامع ترمذی، کتاب الصلوة، باب ماجاء فی الصلوة علی الدابۃ فی الطین والمطر، جلد اول صفحہ 203 مکتبہ رحمانیہ)

اس کے علاوہ بھی ان کے پاس دلائل ہیں ۔

2- علامہ احمد ابن علی حجر عسقلانی، امام دار قطنی، علامہ بدرالدین محمود احمد عینی، علامہ مُلا علی بن سلطان محمد قاری اور امام سہیلی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے اذان نہیں دی ہے۔ اور جامع ترمذی کی مذکورہ روایت کے الفاظ ’’فأذّن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم‘‘ کے بارے میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’ فتح الباری شرح صحیح البخاری ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ جس سند سے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے، اسی سند سے یہ حدیث ’’مسند احمد‘‘ میں بھی موجود ہے، جس میں "فأذّن” (حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان دی) کے بجائے ’’فأمر بلالا فاذن” ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی) کے الفاظ ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’جامع ترمذی‘‘ کی روایت میں اختصار ہے، اور "اَذَّنَ” کا معنی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا۔

چنانچہ امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

*”وَمِمَّا كَثُرَ السُّؤَالُ عَنْهُ هَلْ بَاشَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ بِنَفْسِهِ وَقَدْ وَقَعَ عِنْدَ السُّهَيْلِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذنَ فِي سَفَرٍ وَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ وَهُمْ عَلَى رَوَاحِلِهِمُ السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلِهِمْ أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيقٍ تَدُورُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الرَّمَّاحِ يَرْفَعُهُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ اه وَلَيْسَ هُوَ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ وَإِنَّمَا هُوَ مِنْ حَدِيثِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ وَكَذَا جَزَمَ النَّوَوِيُّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ مَرَّةً فِي السَّفَرِ وَعَزَاهُ لِلتِّرْمِذِيِّ وَقَوَّاهُ وَلَكِنْ وَجَدْنَاهُ فِي مُسْنَدِ أَحْمَدَ مِنَ الْوَجْهِ الَّذِي أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ وَلَفْظُهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ فَعَرَفَ أَنَّ فِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ اخْتِصَارًا وَأَنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ أَذَّنَ أَمَرَ بِلَالًا بِهِ كَمَا يُقَالُ أَعْطَى الْخَلِيفَةُ الْعَالِمَ الْفُلَانِيَّ أَلْفًا وَإِنَّمَا بَاشَرَ الْعَطَاءَ غَيْرُهُ وَنُسِبَ لِلْخَلِيفَةِ لِكَوْنِهِ آمِرًا بِهِ”

یعنی اور یہ جو اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذاتِ خود اذان دی ہے ؟

(تو اس کا جواب یہ ہے کہ) تحقیق امام سہیلی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ بات واقع ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سفر میں اذان دی اور اپنے اصحاب کو نماز پڑھائی، حالانکہ وہ سواریوں پر سوار تھے، ان کے اوپر بارش تھی اور نیچے کیچڑ تھا، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس سند پر بیان کیا جس کا دارومدار حضرت عمر بن رباح پر ہے، جنہوں نے اسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تک مرفوعاً بیاں کیا حالانکہ یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نہیں ہے، بلکہ حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے، اور ایسے ہی امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر جزم کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ سفر میں اذان دی، اور اس کو انہوں نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب منسوب کیا اور اسے قوی قرار دیا لیکن ہم نے اس حدیث کو "مسند احمد” میں اسی سند سے پایا ہے جس سند سے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بیان کیا ہے اور (مسنداحمد کی) حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی ،پس معلوم ہوا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں اختصار ہے اور امام ترمذی کی روایت میں ”اذن“ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان دی) کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ نے فلاں عالم کو ہزار روپے دیے، حالانکہ خلیفہ کا غیر دینے کا، کام کرتا ہے اور اس کو، خلیفہ کی جانب منسوب کر دیا جاتا ہے کیونکہ خلیفہ دینے کا حکم دیتا ہے۔

(فتح الباري شرح صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 79 )

امام ابو قاسم عبد الرحمن بن عبد اﷲ بن احمد بن ابو حسن خثعمی سہیلی تحریر فرماتے ہیں :

"و أما قول السائل هل أذن رسول صلی الله علیه وآله وسلم بنفسه قط فقد روی الترمذي من طریق یدور عمر بن الرماح یرفعه الی أبي هریرة أن رسول صلی الله علیه وآله وسلم أذن في سفر و صلی بأصحابه علی رواحلهم و السماء من فوقهم و البلة من أسفلهم فنزع بعض الناس بهذا الحدیث الی أنه أذن بنفسه و أسنده الدار قطني باسناد الترمذی الا أنه لم یذکر عمر بن الرماح فیما بعده من اسناد و متن لکنه قال فیه فقام المؤذن فاذن و لم یقل أذن رسول صلی الله علیه وآله وسلم”

یعنی اب سائل کا یہ کہنا کہ کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بذاتِ خود اذان دی ہے ؟

تو تحقیق امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ایسی سند سے بیان کیا ہے جس کا دارومدار حضرت عمر بن رباح پر ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تک مرفوعاً بیان کیا ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سفر میں اذان دی اور اپنے اصحاب کو ان کی سواریوں پر نماز پڑھائی، ان کے اوپر بارش تھی اور نیچے کیچڑ تھا۔

پس اس حدیث سے بعض لوگوں نے یہ معنی نکالا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذاتِ خود اذان دی ۔

امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی اسناد کے ساتھ حدیث نقل کی مگر عمر بن رباح اور ان کے بعد کی سند اور متن کو ذکر نہیں کیا، لیکن اس میں فرمایا کہ :

مؤذن کھڑے ہوئے، پس انہوں نے اذان دی، یہ نہیں کہا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان دی ۔

(الروض الانف جلد دوم صفحہ21 عبد التواب اکیڈمي بیرون بوہڑ گیٹ ملتان)

3- تیسرا قول علامہ عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، وہ توقف فرماتے ہیں یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان دی یا نہیں ،اس حوالے سے سکوت اختیار فرماتے ہیں اور کسی رائے کو ترجیح نہیں دیتے۔

چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک رسالہ بنام ’’خیر الخبر في أذان خیر البشر‘‘ میں آئمہ محدثین کے درمیان اختلاف ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا :

’’إنّما الخلاف في أذان الصلاة هل باشر به رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم أم لا؟ وأمّا مطلق الأذان فلا شک في مباشرته به … وبالجملة مباشرة الرسول صلی اللّٰه علیه وسلم بالأذان في أذن المولود ثابت قطعًا، وأمّا مباشرته بأذان الصلاة فنحن نتوقف إلی الآن في ذلک‘‘

یعنی اختلاف تو نماز کی اذان میں ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذاتِ خود اذان دی ہے یا نہیں؟

بہرحال مطلق اذان تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دینے میں شک نہیں ہے، اور بالجملہ بچے کے کان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اذان دینا تو یقینی طور پر ثابت ہے، اور بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز کے لئے اذان دینا، تو اب تک ہم اس میں توقف کرتے ہیں ۔

(مجموعہ رسائل اللکنوی جلد 4 صفحہ 326، صفحۃ الرسالۃ 6 ادارۃ القرآن)

راجح اور تحقیقی قول :

راجح اور تحقیقی قول یہی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کیلیے بذاتِ خود اذان دی ۔

چنانچہ علامہ علاءالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"و فی الضیاء انہ علیہ الصلاۃ والسلام اذن فی سفربنفسہ و اقام و صلی الظھر و قد حققناہ فی الخزائن”

یعنی اور "الضیاء” میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر میں بذاتِ خود اذان دی، تکبیر کہی اور ظہر کی نماز پڑھائی اور ہم نے "الخزائن” میں اس مسئلے کی تحقیق کی ہے ۔

(درمختار علی ردالمحتار جلد دوم صفحہ 88 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ "جدالممتار” میں تحریر فرماتے ہیں :

"اقول: لکن سیأتی صفۃ الصلاۃ عن تحفۃ للامام ابن حجر المکی : (انہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذن مرۃ فی سفر فقال فی تشھدہ ”اشھد انی رسول اللہ”) و قد اشار ابن حجر الی صحتہ، و ھذا نص مفسر لایقبل التأویل، و بہ یتقوی تقویۃ الامام النووی”

یعنی میں (یعنی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں :

لیکن عنقریب صفتِ نماز کے تحت (ذکر تشہد میں) امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "التحفۃ” سے آرہا ہے کہ :

(نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سفر میں ایک مرتبہ اذان دی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان کے کلماتِ شہادت میں یوں کہا : "اشہد انی رسول ﷲ” یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ پاک کا رسول ہوں) اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ نص مُفَسّر ہے جو تاویل کو قبول نہیں کرتی اور اس کے ساتھ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (کے قول) کی تقویت مزید بڑھتی ہے ۔

(جدالممتار علی ردالمحتار جلد سوم صفحہ81 مکتبۃ المدینہ کراچی)

مفتی عبدالقادر رافعی "السراج” کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں :

روی عقبة بن عامر قال : (کنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر فلما زالت الشمس أذن بنفسہ وأقام و صلی الظہر) و قال السیوطي : ظفرت بحدیث آخر مرسل أخرجہ سعید بن منصور في سننہ قال : (أذّن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرةً فقال : حي علی الفلاح) وھذہ روایة لا تقبل التاویل ۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، پس جب سورج ڈھل گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذاتِ خود اذان دی اور تکبیر کہی اور ظہر کی نماز پڑھائی۔ اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میں ایک اور مرسل حدیث حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، جسے سعید بن منصور اپنی سنن میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اذان دی اور فرمایا : "حی علی الفلاح”۔

(علامہ رافعی فرماتے ہیں کہ) یہ روایت تاویل کو قبول نہیں کرتی ۔

(ردالمحتار علی درمختار جلد دوم صفحہ 89 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

عمدۃ المحققین محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"نقل ذلک الرافعی من الشافعیۃ۔ و ردہ الحافظ بن حجر فی تخریج احادیثہ بانہ لااصل لذلک، بل الفاظ التشھد متواترۃ عنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ کان یقول : اشھد ان محمدا رسول اللہ وعبدہ ورسولہ ۔

عن الزرقانی ۔ قال فی التحفۃ : نعم ان اراد تشھد الاذان صح "لانہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذن مرۃ فی سفر فقال ذلک” ۔

یعنی شافعیہ میں سے رافعی نے یہ قول نقل کیا ہے (کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشھد میں "اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ” کی جگہ "اشھد انی رسول اللہ” پڑھا کرتے تھے) ۔ اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کی تخریج میں اس کا رد اس بات کیساتھ کیا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ تشھد کے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں کہ آپ اس طرح پڑھتے تھے : "اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ”

امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ روایت ہے، آپ "التحفۃ” میں فرماتے ہیں : ہاں اگر اس سے تشھدِ اذان مراد ہے تو صحیح ہے، اسلیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ سفر میں اذان دی تو اس طرح پڑھا (یعنی "اشھد ان محمدا رسول اللہ” کی جگہ "اشھد انی رسول اللہ” پڑھا)۔

(ردالمحتار علی درمختار جلد دوم صفحہ 269 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

1 thought on “کیا حضور نے کبھی بذاتِ خود اذان دی ہے ؟”

  1. بہت ہی تحقیقی جواب ہے مفتی صاحب۔
    اللّٰہ آپ کی تحقیق اور تفتیش میں مزید برکتیں نازل فرمائے۔۔۔۔⁦⁩

    جواب دیں

Leave a Reply