کیا ہیلو (hello ) کہنا حرام ہے؟
کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ہیل کے معنی جہنم اور ہیلو (hello ) کے معنی جہنمی کے ہیں، کچھ لوگ سوشل میڈیا پر اس طرح کے میسج بھی وائرل کررہے ہیں۔
الجواب بعون الملک الوہاب :
ہیلو کہنا بالکل جائز ہے، لغت کسی بھی کتاب میں ہیلو کا معنی جہنمی لکھا ہوا نہیں ہے، بلکہ یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ "ہیلو ملاقات کے وقت بولا جاتا ہے” یا "کسی کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے بولا جاتا ہے”. اور جہنم کو تو انگلش میں "Helish” یا "All Fired” کہا جاتا ہے۔
لہذا ہیلو کو ناجائز و حرام کہنا بالکل غلط اور باطل ہے ۔
چنانچہ تمام ڈکشنریز میں "Hello” کے متعلق یہی لکھا ہے کہ یہ "Exclamation noun”
ہے یعنی اس کا تعلق ان الفاظ سے ہے جو اچانک بولے جاتے ہیں، اور ا کثر ڈکشنریز میں اس کے بولنے کے مواقع کا بھی ذکر ہے، جیسا کہ
"Oxford Advanced Learener,s Dictionry”
میں اس کے استعمال کے بارے میں لکھا ہے :
"Used as a greeting when you meet somebody,when you answer on the telephone or when you want to attract somebody,s attention”
یعنی جب کس سے ملتے ہیں تو اس وقت "hello” استعمال کیا جاتا ہے یا جب کسی کو فون پر جواب دیتے ہیں، فون "attend” کرتے ہیں، اس وقت بولا جاتا ہے یا کسی کو متوجہ کرنے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔
(موبائل فون شریعت کے آئینے میں صفحہ 123، 124 مکتبہ فیضان شریعت لاہور)
اور "فیروز اللغات” میں ہے :
ہیلو : (Hello)
(1)- متوجہ کرنے کا کلمہ ۔
(2)- اظہارِ تعجب کا کلمہ ۔
(فیروزاللغات صفحہ 724 فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ)
البتہ ایک مسلمان کو اپنی گفتگو کا آغاز ہیلو کے بجائے، سنت طریقہ کے مطابق "سلام” سے کرنا چاہیے۔
اور جو لوگ ہیلو کہنے کو حرام کہہ کر بغیر علم کے فتویٰ دے رہے ہیں، ایسے لوگ سخت گنہگار ہیں۔
چنانچہ بےعلمی کی وجہ سے جھوٹا اور غلط مسئلہ بیان کرنے کے متعلق آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"مَنِ افْتٰی بِغَیْرِ عِلْمٍ لَعَنَتْہٗ مَلاَئِکَةُ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ”
یعنی جو بغیر علم کے فتوی دے، اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔
(کنز العمال جلد 10حدیث نمبر 29014 بیروت)
اور آجکل سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا یہ حال بنتا جارہا ہے کہ جو بھی چیز ان کے پاس آتی ہے، اس کو سوچے سمجھے بغیر دھڑا دھڑ شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ اس طریقے کو جھوٹوں کا طریقہ قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ صحیح مسلم میں ہے :
"کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ماسمع”
یعنی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے۔
(صحیح مسلم جلد اول صفحہ 9 قدیمی کتب خانہ کراچی)
لہذا احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ جب تک دینی مسئلے یا اسلامک پوسٹ کی تصدیق کسی سنی مفتی یا سنی عالم سے نہ کروالی جائے، تو تب تک اس کو آگے شیئر نہ کیا جائے۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی