"الرضا نیٹورک پر شائع ” جاوید اختر بھارتی کی تحریر ” کیا درست ہے حسب و نسب کا نشہ۔۔۔۔“ کا تنقیدی جائزہ

"الرضا نیٹورک پر شائع "

جاوید اختر بھارتی کی تحریر ” کیا درست ہے حسب و نسب کا نشہ۔۔۔۔“ کا تنقیدی جائزہ

تحریر محمد فیضان رضا علیمی، سیتامڑھی

قلم کی طاقت و قوت اپنی جگہ مسلم ہے یہی وہ قلم جس سے انسان پوری دنیا میں بسنے والے انسان اور قیامت تک آنے والے لوگوں تک اپنی بات اور ذہن و فکر میں موجود مواد کو صفحۂ قرطاس پر لا کر پیش کر سکتا ہے۔ لیکن اس قلم کی ایک خاصیت یہ بھی کہ جیسا کردار و عمل، سوچ و فکر اور دین و مذہب کا آدمی ہوتا ہے ویسا ہی مضمون و مقالہ زیرِ ورق کرتا ہے۔ جناب جاوید اختر بھارتی کس طبقہ و فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، کیسی سوچ و فکر کے متحمل ہیں، کتنی تعلیم و تربیت سے پر ہیں یہ سب تو مجھے نہیں معلوم البتہ یکم ستمبر 2021ء کوان کا ایک دل خراش مضمون ” کتنا درست ہے حسب و نسب کا نشہ؟ محض اعلی نسب ہونے پر گھمنڈکس لیے؟ ” جو الرضا نیٹورک روزنامہ ویپ سائٹ پر اور دیگر اخبار میں شائع ہوا ۔ یہ مضمون ان کی سطحیتِ ذہن اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اطہار، سید زادوں سے دشمنی اور نفرت کا پتہ ضرور دیتا ہے۔

مضمون کا ہڈینگ تو اس قدر دل چسپ ہے کہ اولِ نظر میں نہ چاہ کر بھی مضمون پڑھنے کا دل کرنے لگتا ہے۔ مضمون میں جناب بھارتی صاحب نے خوب الفاظ کے پیراہن میں سید زادوں کو کھڑی کھوٹی سنایا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ حسب و نسب کوئی چیز نہیں اورعزت و شرافت، مقام و مرتبہ سید ہونے پر نہیں بلکہ متقی ہونے پر ہے۔ اور اپنے دعوی کی دلیل میں آیت قرآنی اور اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پیش کیا اور بار بار غیر مقلد کی طرح قرآن حدیث کا مطالبہ کیا۔ بندہ ناچیز نے جب سے مضمون پڑھا تب سے ہی دل مضطرب ہوگیا کہ اس قدر اعلی نسب ذات اطہر پر بے وجہ کا تبصرہ کیا جارہا ہے۔ پہلے تو الرضا نیٹورک کے ایڈیٹر محب گرامی مولانا احمد رضا صابری مصباحی صاحب سے کہا کہ اس کا مضمون قابل اشاعت نہیں ہے آپ نے کیسےشائع کردیا میرا ارادہ ہے کہ اس کی تردید کی جائے انہوں نے کہا آپ لکھیے میں شائع کروں گا میں نے ان کی پہلی تحریر پر اعتماد کرتے ہوئے شائع کردیا ہے یہ میری غلطی ہے۔ جو اس نے غلط لکھا ہے اس کا آپ رد کریں میں اسے ضرور شائع کروں گا۔ بندہ ناچیز آل رسول کی جوتوں کے نیچے کے گرد کا متمنی ہو کر بھارتی صاحب کی تحریر کا تنقیدی جائزہ پیش کر رہا ہے۔

محرر صاحب اپنی تحریرکا آغاز اس جملے سے کرتے ہیں ” قرآن مقدس ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر رہا ہے کہ اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد ایک عورت سے پیدا کیا،، تم سب آدم و حوا کی اولاد ہو،،۔۔۔۔۔۔۔ باقی پوری آیت کا ترجمہ ہے‌” اس کے بعد موصوف نے نہ تو اس آیت کا شان نزول بیان کیا اور نہ کوئی تفسیر کی کتابوں سے ایک تفسیر ہی کیا بلکہ اپنی من پسندیدہ اور مطلب کی بات پر اکتفا کیا۔ جسے کچھ حد تک درست بھی مان لیا جا سکتا ہے۔ کہ وہ لکھتے ہیں ” اب ظاہر سی بات ہے صرف موڑنے والا متقی نہیں، صرف گٹھی دینے والا متقی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، خانقاہوں میں ڈیرہ ڈال کر زائرین کے خون پیسنے کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے والا متقی نہیں” یہ ایک لمبا من مانی تبصرہ ہے۔ جس سے ان کی معمولاتِ اہل سنت سے نفرت اور اولیا کرام کے مزار مقدس سے دشمنی کا پتا چلتا ہے۔ خیریہ تو ایک الگ بحث ہے۔ اس یتبصرہ کے اخیر میں وہ لکھتے ہیں کہ ” اور اسٹیجوں پر چیخ چیخ کر اپنے آپ کو سامعین سے سید تسلیم کرانے والا اور سید برادری پر گھمنڈ کرنے والا بھی متقی نہیں”

اس پر محرر صاحب سے عرض یہ ہے کہ آپ پہلے یہ پتالگائیے کہ اسٹیج پر اس طرح سے بولنے والا اصلی سید ہے یا نقلی کہ آج کل شاہ برادری کے لوگ بھیاپنے کو سید لکھتے اور لکھواتے ہیں اور شہرہ بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ میں نے آج تک کسی نسبی سید زادوں کو نہیں دیکھا ،نہ سنا کہ وہ اسٹیجوں پر لوگوں کو یہ ترغیب دے رہے ہوں کہ مجھے سید کہوں، میں سید زادوں ہوں، میری تعظیم کرو وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ایک جعلی اور خود ساختہ سید کا ہی کام ہے۔ اس لیے جناب ذرہ کسی چیز کی جاچ پڑتال کر لیا کریں۔

جاوید صاحب اس کے بعد خلفاے اربعہ کی ذات کا آئنہ دیکھاتے ہیںاور کچھ آگے جاکر لکھتے ہیں ” آج کل فیس بک، واٹس ایپ جیسی سوشل میڈیا پر کچھ چہرے ہیں جو گھوم گھوم کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہماری تعظیم تمہارے اوپر واجب ہے، ہم سید ہیں۔ تو ہم آل رسول ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم لاکھوں برے ہوجائیں پھر بھی آپ کو ہمارا احترام کرنا ہے کیوں؟ اس لیے کہ ہم سید ہیں” جناب پھر میں کہ رہا ہوں کہ کوئی سید زادے اس طرح سے نہیں کہتے ہیں آپ اپنی عقل و خرد اور سوچ و فکر کو بدلیے۔

اسی کے کچھ آگے جناب نے یہاں تک لکھ ڈالا کہ "حالانکہ سید نام کی برادری زبردستی بنائی گئی ہے۔” تو اس پر عرض یہ ہے۔علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف "اشرف المؤبد لاٰلِ محمد” میں لفظ سید و شریف کے متعلق لکھتے ہیں: جس کا ترجمہ صائم چشتی نے کیا ہے۔

” اہلِ بیتِ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ صورتِ اول کی اصطلاح میں لفظ اشرف کا اطلاق جمیع اہلِ بیت پر ہوتا تھا بعدازاں یہ لفظ اِن میں سے صرف حسیوں اورحسینیوں کے لیے مخصوص ہوگیا۔

امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے رسالہ زینبیہ میں فرمایا ہے قرنِ اول میں اہلِ بیت کے ہر فرد کے لیے شریف کا لفظ استعمال ہوتا تھا اور اس میں سب برابر تھے خواہ حسنی ہوں یا حسینی، علوی ہوں یا اولاد محمد بن حنیفہ ،خواہ حضرت علی کے دوسرے بیٹیوں کی اولاد ہو یا جعفری عقیلی ہو یا عباسی –

جب مصر میں فاطمین کی حکومت قائم ہوئی تو شریف کا لفظ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم کی اولاد تک محدود ہوگیا اور مصر میں اب تک یہی صورت ہے۔

میں کہتا ہوں مشرق و مغرب کے تمام بلادِ اسلامیہ میں اس وقت بھی عام اصطلا ح یہی ہے اور عربی زبان میں جب بھی شریف کا لفظ کہا جائے گا۔ اس سے مراد حسنی یا حسینی ہے۔

سوائے حجاز کے اکثر ملکوں میں حسنیوں اور حسنیوں پر بطور خاص لفظِ سید استعمال ہوتاہے۔ اور جب بھی لفظِ سید کہا جاتا ہے تو اولادِ حسن و حسین کے سوا دوسرا کوئی دوسرا مراد نہیں ہوتا۔ جب کہ اہلِ حجاز حسنیوں اور حسنیوں کے امتیاز کے لیے حسنی کے لیے شریف کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور حسینی پر سید کا اطلاق کرتے ہیں۔“) اشرف السادات ص: (۱۰۷

میرے خیال سے جاوید بھارتی صاحب کے اعتراض کا جواب مل گیا ہوگا۔ ا‌ور معلوم ہوگیا ہوگا۔ کہ سید اولاد رسول ہی کو کہا جاتا ہے اور یہ کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا طریقہ ہے۔ ان کے علاوہ کئی ایک دلیلیں پیش کی جاسکتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر۔ طوالت کے خوف سے ایک پر ہے اکتفا کیا جاتا ہے۔

اب ذرہ لغات کو دیکھ لیتے ہیں کہ جناب نے لغات کا بھی تذکرہ کیا کہ "لغات میں برادری کے ناموں کے ایسے ایسے معنی تحریر کیے گئے ہیں کہ پڑھنے کے بعد بے ساختہ اور برجستہ کہا جاسکتا ہے کہ۔۔۔۔” تو دیکھیے آف لائن اردو لغت ایپ جس میں سید زادہ کا معنی اس طرح درج ہے ” سادات کی نسل، حسبی نسبی سید، سید کا بیٹا”

ایک ڈیڑھ سطر بعد جناب اپنی پرانی رویش کو دہراتے ہوئے قرآن حدیث کی بات پھر دہرانے لگتے ہیں اور لکھتے ہیں ” جب کہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کے خاندان کا نام سید نہیں، نبی کے فبیلے کا نام بھی سید نہیں بلکہ نبی کے خاندان کا نام بنو ہاشم اور نبی کے قبیلے کا نام قریش ہے” اس پر صرف اتنا عرض گزار ہوں صاحب کوئی سید زادے یہ نہیں کہتےکہ میرا خاندان سید ہے بلکہ سب کا یہ ماننا ہے کہ خاندانِ اہل بیت رسول کا ہر فرد ہاشمی اور قریشی ہے۔ اور آپ کی معلومات کے بتاتا چلوں کہ خاندان کا اور معنی ہے اور ذات برادری کا معنی کچھ اور ہے‌۔ اسی لغت کو دیکھیے جس کی آپ بات کر رہے ہیں۔

اس کے بعد موصوف نے سید کا لغوی ایک معنی بیان کیا اور اس کے بعد سید الانبیاء حضور نبی پاک صلى الله عليه و سلم، حسنین کریمین، سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہم پر لفظ سید کو سیٹ کیا جو ہر کس و ناکس کو ایک مرتبہ بتا دیا جائے تو سمجھ میں آجائے کون نہیں جانتا کہ پیارے کریم صلى الله عليه وسلم کو سید الانبیا و المرسلین اس لیے کہا جاتا ہے وہ نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں ، کون نہیں جانتا کہ حسنین کریمین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور کون نہیں جانتا کہ سیدنا امیر حمزہ شہدا کے سردار ہیں۔ لیکن اس کے بعد جناب لکھتے ہیں ” تو آج اپنے کو سید کہلانے اور فخر کرنے والا بتائیں کہ وہ کس بات کے سردار ہیں” تو صاحب ان کے سردار ہونے کے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ وہ پیارے رسول کی اولاد ہیں۔ امام سیوطی اپنی تصنیف الحاوی للفتاوی میں لکھتے ہیں:

”أن الوصایا و الأوقاف تنزل علی عرف البلد ، و عرف مصر من عہد الخلفاء الفاطمیین إلی الآن أن الشریف لقب لکل حسنی و حسینی خاصة فلا یدخلون علی مقتضی هذا العرف ” اھ یعنی وصیت اور وقف شہر کے عرف کی طرف رجوع کیا جاتاہے ، اور مصر کا عرف خلفاءِ فاطمیین کے زمانے سے اب تک یہ ہے کہ سیّد بطورِ خاص ہرحسنی و حسینی کا لقب ہے پس اس عرف کا تقاضا ہے کہ دیگر اہل بیت کرام اس میں داخل نہ کئے جائیں ” اھ ( الحاوی للفتاوی للسیوطی ج 2 ص 41 دارالفکر بیروت(

آگے موصوف لکھتے ہیں ” ایک صاحب ہیں تو چیخ چیخ کر تقریر کر رہے ہیں کہ کوئی سید بڑے سےبڑاجرم کرے اور گناہ کرے تو پھر بھی تعظیم واجب ہے موصوف نے نام لے لے کر برے کاموں کو گنایا ہے اور ایسے بیہودہ کلمات ادا کیے ہیں کہ وہ ناقابل تحریر ہیں دوسرے صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ جتنے چاہیں عمل کر لیں مگر کسی سید پیروں کی جوتی کے برابر نہیں ہوسکتے بتائیے یہ گھمنڈ ہے کہ نہیں؟

اس کے تحت دو باتیں عرض ہیں:

اولاً تو یہ بات جو آپ کہ رہے ہیں اس میں آپ کتنے سچے ہیں یہ خدا ہی جانے لیکن جناب عالی ایک عالم و مولوی اگر جرم اور گناہ کی بات کرتا ہے جو ایسا نہیں کہ زنا، چوری اور کار رزیلہ کے بارے میں سرے عام باتیں کرتا ہے زیادہ سے زیادہ وہ گناہ صغیرہ کی بات کرتاہے ۔ یہ میں بھی مانتا ہوں کہ اس طرح سے باتیں نہیں کرنا چاہیے یہ خلاف ادب ہیں اور اس سے ماحول پراگندہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جناب یہی جان لیجیے کہ ان جرم اور گناہ کی وجہ سے ان کی بدتمیزی نہیں کرسکتے ہیں۔ دیکھیے” احکام السادات” مصنف مولانا افضل قادری صاحب لکھتے ہیں :

"حجة الله على العالمین” میں احزر مفھومہ، وزیر علی بن عیسیٰ ہر سال کسی علوی سید زادے کو 5000 ہزار درہم بطور ہدیہ دیتے تھے، ایک سال ایسا ہوا کہ انہوں نے اس سید زادے کو نشے میں دھت زمین پر پڑے دیکھا، نشے میں دیکھ کر ارادہ کیا کہ آئندہ اس کو پھر نہیں دوں گا، کیوں کہ یہ تو ان پیسوں کو شراب و کباب میں خرچ کرتا ہے۔

چنانچہ اگلے سال جب وہ سید زاده وزیر علی بن عیسی کے پاس اپنا ہدیہ لینے آیا تو وزیر اس سید زادے کو سختی سے منع کیا کہ آئندہ میرے پاس مت آنا کیوں کہ تم ان پیسوں کو حرام کاموں میں خرچ کرتے ہو، یہ سن کر وہ سید زادہ تشریف لے گیا۔

رات کو وزیر علی بن عیسی نے خواب دیکھا اور خواب میں ان کونبیوں کے تاجدار صلی اللہ تعالى عليه و سلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ مگر ہائے افسوس جب وزیر نے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا تو آقاے دو عالم صلی اللہ تعالی عليه وآله و سلم نے وزیر سے اپنا رخِ انور پھیر لیا، وزیر سخت بے چین و پریشان ہوا، کہ سرکار صلی الله تعالى عليه و اله و سلم مجھ سے اپنا رخِ انور پھیر رہے ہیں۔

چنانچہ دوسری جانب سے پھر سرکار صلی الله تعالى عليه واله وسلم کی بارگاہ میں آکر عرض گزار ہوا۔ یارسول اللہ صلی الله تعالى عليه واله وسلم آپ مجھ سے اپنا رخ زیبا کیوں پھیر رہے ہیں مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے؟

نبیوں کے تاجدار صلی الله تعالى عليه و اله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”تم اس سید زادے کو اس کے کسی ذاتی کمال کی وجہ سے نذرانہ دیتے تھے یا میری نسب کی وجہ سے؟‘‘

اللہ اکبر ! مطلب کیا، مطلب صاف ظاہر ہے کہ اگر تم اس کو سید سمجھ کر خدمت کرتے تھے تو اب بھی وہ سید ہی ہے، گناہوں کی وجہ سے اس کا نسب مجھ سے منقطع نہیں ہوا، وہ میرے آل ہی میں داخل ہے، جب وہ میری اولا د ہے تو تم نے اس کا نذرانہ کیوں بند کیا۔

اعلی حضرت لکھتے ہیں ”سید اگر بد مذہب بھی ہو جائے تب بھی اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک اس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک نہ پہنچ جائے“

شعب الایمان میں حدیث شریف ہے۔ ”جو میری اولاد اور انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین علتوں سے خالی سے نہیں۔ یا تو منافق ہے یاولد الزنا ( حرامی ) یا حیضی (یعنی حیض کی حالت میں اس کا نطفہ قرار پایا)“ ( احکام السادات،ص: ۶-۷)

ان واقعات و اقوال سے آپ اپنا اندازہ لگالیجیے۔

دوم آپ یہ بتائیں کہ کس نے کہا ایک سید زادے یا کسی دوسرے عالم صاحب نے۔ اگر سید زادے نے کہا ہے تو اوپر ذکر چکا ہوں کہ اصلی سید زادے اس طرح کی باتیں نہیں کرتے ہیں اور دوسرے نے کہا ہے تو آپ کا اعتراض بےجا اور عبث ہے۔ کہ دوسرے کے کہنے کی وجہ سے خود پر گھمنڈ کا سوال ہی نہیں ہوتا۔

اگر دوسرے ان کے پیروں کی جوتی کو اپنے سر کا تاج ہکہ رہے تو یہ ان کی عقیدت ہے جو بزرگوں سےچلی آرہی ہے اس سے آپ کو تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ہم اہل سنت کو اختلاف نہیں ہے ہم آل رسول کو اپنے سر کا تاج مانتے ہیں‌۔

پڑھیے ہمارے بزرگوں کا طریقہ ” حضرت شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خان علیہ الرحمہ کے پاس ایک سید صاحب پڑھا کرتے تھے ذہن کند تھا سبق یاد نہ ہوتا تھا، ایک مرتبہ حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی حضور ! سید کا لڑ کا اگر سبق یاد نہ کرتا ہو تو سزا دی جاسکتی ہے؟ فرمایا کیا فرماتے ہیں، سیدزادہ اور سزا ہرگز نہیں، اس پر عرض کی تو پھر نہیں پڑھے گا ، جاہل رہے گا ،فرمایا: جب مجبور ہو جائے تو یہ نیت کر لی جائے کہ سید زادے کے پاؤں میں مٹی لگ گئی ہے اسے صاف کر رہا ہوں ۔ اللہ اکبر کیسا حترام تھا۔ ( کرامات اعلی حضرت مطبوعہ کراچی ۱۹۹۵و۲۰ اقبال احمد رضوی مصطفائی )

جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع عید الفطر بعد نماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا مگر جس وقت (سید) قناعت علی دست بوس ہوئے ،اعلی حضر ت ( امام احمد رضا قادری نے ان کے ہاتھ چوم لیے، یہ خائف ( خوفزدہ ) ہوئے ، اور دیگر مقربان خاص سے تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ حضور اعلے حضرت امام احمد رضا قادری کا یہ معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران مصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں، اعلی حضر ت اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں ۔(یعنی ہاتھ چوما کرتے ہیں۔(حیات اعلی حضرت مکتبہ رضویہ کراچی ص۲۰۱) ﴿ بحوالہ حكام السادات ص: ۸۴-۸۵﴾

جاوید بھارتی صاحب پھر سے قرآن مجید کی وہی آیت کریمہ کا ایک ٹکڑا پیش کرتے ہیں، جس کا شروع میں ترجمہ کیے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

” ان اکرمکم عنداللہ التقاکم کی مخالفت ہے کہ نہیں؟”

پہلے تو آپ یہ سیکھیے کہ قرآن مجید کو رسمِ عثمانی کے علاوہ لکھنا حرام ہے، جس پر "مجلسِ شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور” کے تحت سمینار ہوچکا ہے اور ملک کے اکابر مفتیان کرام باتفاق راے یہ فیصلہ صادر فرما چکے ہیں کہ قرآنی آیات کو رسمِ عثمانی ہی میں لکھنا لازم ہے اور اس کے خلاف لکھنا حرام ہے۔ قرآن مجید میں یہ آیت کریمہ اس طرح درج ہے:

”اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰکُمْ“ اگر آپ کی خواہش ہوگی تو مجلسِ شرعی مبارک پور اور دیگر اکابر مفتیانِ کرام کا فتوی بھی دکھایا جائے گا۔ ابھی اتنا ہی۔

اب رہی بات کہ آیت کریمہ کی مخالفت ہوئی یا نہ ہوئی تو سنیے جناب عالی!

جب سید زادے اس کے قائل ہی نہیں ہیں تو کیسے مخالفت ہوئی، یہ تو ادنی تأمل والا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔ اور یہ آپ کی تحریر بھی بتا رہی ہے کہ کسی سید زادے نے نہیں بلکہ ان کے کسی عقیدت مند نے کہا ہے۔

یہاں پر ایک بات اور عرض کر دوں کہ جناب یہ ایک آیتِ کریمہ ہے جس میں عمومی بات کی گئی ہے اور سارے قبائل کو حسب و نسب، رنگ و نسل اور ذات پات کی تمیز سے دور رہنے اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہونے کا معیار "تقوی” کو بتایا گیا ہے، جس پر ہر صاحبِ علم و بصیرت کا عقیدہ ہے۔ لیکن اسی قرآن مجید میں دسیوں مقام پر اہلِ بیت اطہار اور اولاد رسول کی فضیلتیں وارد ہیں۔ ذرا اس کو بھی دیکھیے۔

آیتِ کریمہ ” وَاعْتِصَمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَ لَا تَفَرَّقُوْا “ ترجمہ: اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آ پس میں پھٹ نہ جانا۔ (آلِ عمران: ۳/ ۱۰۳)

حضرت صدرالافاضل مرادآبادی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: حبل اللہ کی تفسیر میں مفسرین کے چند قول ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے، مسلم کی حدیث شریف میں وارد ہوا کہ قرآن پاک حبل اللہ ہے جس نے اس کا اتباع کیا وہ ہدایت پر ہے جس نے اس کو چھوڑا وہ گمراہی پر ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: حبل اللہ سے جماعت مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم کر لو کہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ( خزائن العرفان )

اور یہی صدرالافاضل علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’ سوانح کربلا “ میں فرماتے ہیں:” ثعلبی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ الرحمہ سے روایت کی کہ آپ نے آيت ” وَاعْتِصَمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَ لَا تَفَرَّقُوْا “ کی تفسیر میں فرمایا کہ ہم (اہل بیت حبل اللہ ہیں)۔“

( سوانح کربلا ص: ۵۰)

حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یارخاں نعیمی فرماتے ہیں:

”بعض مفسرین نے فرمایا کہ حبل اللہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی آلِ پاک ہے لہٰذا آلِ رسول کی غلامی ہدایت و نجات کا ذریعہ ہے اور بعض کے نزدیک حبل اللہ خود حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہیں، جیسے کنویں میں گرا ہوا، دی ہوئی رسی پکڑ کر اوپر آتا ہے ایسے ہی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ذریعہ نیچے والے لوگ حق تک پہنچے۔“

( تفسیر نورالعرفان ص: ۹۹ ، ۔۔۔)

اس آیت کی تفسیر میں آپ کا اعتراض بھی ہے اور نصیحت بھی۔ لہذا غور سے پڑھیے گا اور نصیحت پر عمل بھی کیجیے گا۔

روکنے ٹوکنے کی تلخ نصیحت دینے پر صرف اتنا عرض ہے کہ آپ ایک تحریک چلائیے اور اس میں یہ لازم شرط رکھیے کہ اندھ بھکتی نہیں چلے گی، جس کا بندۂ ناچیز بھی ساتھ دے گا۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ اپنے آقاؤں کی تعریف اندھ بھکتی نہیں ہے۔

جناب آپ کی اس ” خود راقم الحروف 2011 سے 2016 تک سعودی عرب میں رہا ہے بہت سے کاغذات پر نام سے پہلے جناب کی جگہ پر سید لکھا ہے اور جسے نہ یقین ہو وہ عرب ممالک کے سفارت خانے سے سرکاری خطوط دیکھ لیں بہت سے خطوط پر جناب کی جگہ سید لکھا ہوا مل جائے گا اور راقم الحروف سعودی عرب کے شہر ریاض، طائف، جدہ، الغاط، المجمع، صناعیۃ، درعیۃ، القسیم یہاں تک کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی گیا لیکن کہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو کہے کہ میں سید ہوں میں آل رسول ہوں اور کوئی یہ بھی کہنے والا نہیں ملا کہ وہ کہے کہ دیکھو وہ فلاں شخص آل نبی ہے،، جبکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور آج بھی مدینہ منورہ میں گنبد خضریٰ کے نیچے آرام فرما ہیں اور یہ قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے،،

اس اقتباس کا جواب یہ ہے کہ صاحب! پہلی قسط میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ شریف و سید کا استعمال کس طرح ہوتا چلا آرہا ہے اور کون سی جگہ کیسے استعمال ہوتا ہے وہ بھی وہاں آپ کو بتایا گیا ہے۔ تو یہ اعتراض بھی آپ کا بے جا ہے کہ سعودی عرب میں کوئی سید نہیں۔ دوسری بات جناب! آپ پانچ سال رہیے یا پچاس سال رہیے! کوئی ضروری تو نہیں کہ آپ نے نہیں دیکھا نہیں سنا تو کوئی آلِ رسول ہی نہیں ہیں وہاں جناب!

بہت سارے اولادِ رسول عرب ممالک میں آج بھی ہیں اور بہت پہلے سے بھی چلے آرہے ہیں۔ اکابر علما کی کتابوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوجائے گا۔ ایک مرتبہ "حسام الحرمین” کو پڑھیے، بہتوں سید زادے کا پتا چل جائے گا۔

ایک سوال میرا بھی کہ آپ نے لکھا کہ

” قرآن و حدیث سے ثابت ہے”

قبلہ! ذرا دلیل سے بتانے کی زحمت کیجیے گا۔

آگے لکھا ہے "اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کے خاندان کے سبھی لوگ ہندوستان و پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہی چلے آئے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے بزرگان دین کے اخلاق و کردار کو دیکھا تو متاثر ہوئے اور حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے مگر چونکہ حالت کفر میں ان کے اندر جو ذات برادری کا تعصبانہ نظریہ و خیال تھا وہ آج بھی ہے اور عام طریقے سے پنڈت مسلمان ہوئے تو وہ سید لکھنے لگے اور ٹھاکر مسلمان ہوئے تو خان اور پٹھان لکھنے لگے اور آج بھی بہت سے مسلمان بھی اپنے کو راجپوت لکھتے ہیں،،

پھر من مانی سوال اور نفرتی انداز لے کر آگئے اوہ جناب! ذرہ سے دل کو ٹھنڈا رکھیے ورنہ ہارڈ ایٹک ہوجائے گا۔

جناب عالی! جوش میں ہوش نہیں کھویا جاتا۔ کسی کی نفرت میں اس طرح سے نہیں بولا جاتا کہ اس کی اصل سے ہی انکار کر دیا جائے۔ شاید آپ کو صرف قرآن و حدیث کا زبانی اور رٹّو طوطا والا پارٹ یاد ہے۔ لیکن کبھی توفیق نہیں ہوئی ہے کہ ذرہ سمجھ بھی لیا جائے یا پھر خوب لکھنے کا ایسا نشہ سوار ہے کہ جو من میں آتا ہے لکھ دیتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ابھی ملک میں کیسے حالات چل رہے ہیں آئے دن مسلم قوم کی جان و مال اور ایمان پر حملے ہو رہے ہیں اور ایسے میں آپ آل نبی کو ہی کافر و مشرک کی اولاد بتانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جناب عالی! اس عبارت سے آپ پر توبہ لازم ہے۔ آپ کو بتادوں کہ نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کا نسل مبارک سیدنا حسنین کریمین سے چلا ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی سید زادے بس رہے ہیں، سب کے سب خاندانِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہی سے ہیں۔ کوئی پنڈت، سید نہیں ہوا ہے، یہ تو آپ کی خام خیالی ہے۔

اگر بقول آپ کے یہ مان ہی لیا جائے کہ سب سید پہلے پنڈت تھے تو ذرہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ سیدنا خواجہ غریب کیا تھے؟ جن کے دست مبارک پر 60 ہزار سے زائد لوگ کلمہ طیبہ پڑھ کر دامنِ اسلام سے وابستہ ہوئے ہیں اور یہ بھی بتا دیجیے کہ ان کی اولاد آج کس ملک میں بس رہی ہیں اور سیدنا خواجہ غریب نواز کو ہندوستان کیوں چھوڑ گئی ہیں۔

لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیے گا کہ

سیدنا محبوب الہی خوجہ نظام الدین اولیا دہلی، سیدنا قطب الدین بختیار کاکی دہلی، سیدنا مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحی منیری بہار شریف، سیدنا صاحب دعوة الصغری بلگرامی، سیدنا شاہ برکت اللہ ترمذی کالپی، سیدنا مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی کچھوچھ اور دوسرے اکابر اولیاے عظام بھی کیا پنڈت کی اولاد ہیں؟ معاذ اللہ! جناب محترم! توبہ کیجیے ایسی حرکت سے اور خدارا! اس طرح سے مت کسی آلِ رسول کا دل دُکھائیے۔ اور ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ ٹھاکر کو جو آپ خان پٹھان بنا رہے ہیں تو اس سے بھی ہمارے اعلی حضرت اور آپ کا خاندان محفوظ ہے کہ یہ لوگ قابلی خان پٹھان ہیں۔ یہ اس لیے بتا دیا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ اب آپ خان پٹھان کے بارے میں اپنی نفرت نکالنے کے لیے بیٹھ جائیں اور خاندانِ اعلی حضرت کو ٹھاکر بنا دیں۔

آپ کے آخری جملے اور اس کا جواب

” ایک اور نام نہاد مقرر ہے جو کہتاہے کہ نبی نے جنت میں جانے کی صرف ہمیں ضمانت دی ہے اور صرف ہماری ذمہ داری لی ہے آگے بہت سی برادری کا نام لے کر کہتا ہے کہ کسی کی ذمہ داری نہیں لی ہے اس لئے ہمارے مرتبے کو سمجھو ہم سید ہیں ہم نبی کی خاندان کے ہیں،، اب یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ مبشرہ کے تذکرے کے ساتھ بغاوت ہے کہ نہیں؟ اس کم ظرف اور تنگ نظر کو معلوم ہونا چاہیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ جن کے پاس تین بیٹیاں ہیں تو وہ باپ اچھی تعلیم و تربیت کرکے پھر اس کا نکاح کردے تو وہ میرے ساتھ جنت میں ایسے ہوگا جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں،، صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اللہ کسی کے پاس دو ہوں تو،، فرمایا وہ بھی،، پھر پوچھا ایک ہوں تو فرمایا وہ بھی،، اللہ کے نبی نے تو یہ بھی کہا کہ والدین کا فرماں بردار جنتی ہے، جو اچھے ڈھنگ سے نماز کے لئے وضو بنائے وہ جنتی ہے یہاں تک کہ جو مسلمان دوسرے مسلمان سے خلوص کے ساتھ ملے سلام کرے اور مصافحہ کرے وہ جنتی ہے،، اور یہ صاحب ذات برادری کی بنیاد پر جنت کا ٹکٹ بانٹ رہے ہیں اور ایسا بیان کرتے ہیں جیسے پہلے ہی جاکر تالا بند کردیں گے،، چاہے کوئی کچھ بھی کہے حقیقت یہی ہے کہ رنگ و نسل، حسب نسب، ذات برادری کے اعتبار سے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے،، صرف تقویٰ اور پرہیزگاری کی بنیاد پر بلندی حاصل ہے چاہے وہ کسی بھی برادری کا ہو”

جناب محترم جاوید بھارتی صاحب! پھر میں کہہ رہا ہوں ذرہ آپ جانچ پڑتال کرلیا کیجیے۔ دوسری بات کسی سید زادے کو تنگ نظر اور کم ظرف کہنے کا آپ کو کوئی حق نہیں خدارا! اپنے زبان و قلم سے سادات پر حملہ نہ کریں۔ اور جو عشرۂ مبشرہ اور حدیث کی رو سے جن کے بارے میں آپ نے بتایا ہے سب اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن اولادِ رسول ہونے کی وجہ سے ان کو یہ ضرور حق ہوگا کہ وہ اپنے نانا جان سے سفارش کر کے دوسروں کو جنت میں داخل کروائیں گے۔

چناں چہ اعلی حضرت امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا قادری قدس سرہ فرماتے ہیں کہ سچے محبانِ اہل بیتِ کرام کے لیے روز قیامت نعمتیں، برکتیں، راحتیں ہیں ،طبرانی کی حدیث میں ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا: ”الزموا مؤدتنا اهل البيت فانه من لقى اله وهو يودنا دخل الجنة بشفاعتنا والذي نفسي بيده لا ينفع عبدا عمله الا بمغفرة حقنا“ (المعجم الاوسط حد یث ۲۵۱ مکتبہ المعارف باش۱۲۲/۳)

ہم اہل بیت کی محبت لازم پکڑو کہ جو اللہ سے ہماری دوستی کے ساتھ ملے گا، وہ ہماری شفاعت سے جنت میں جائے گا۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کسی بندے کو اس کا عمل نفع نہ دے گا، جب تک میرا حق نہ پہچانے۔ ( فتاوی رضوی۴۲۳/۲۲ رضافاؤنڈیشن لاہور)۔

اس حدیث سے تو آپ کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ وہ لوگ شفاعت کریں گے اور ان کے ذریعہ سے شفاعت ہوگی۔

ہٹ دھرمی والا جملہ پھر سے لے کر آگئے ہیں آپ! صاحب! یہ کوئی نہیں کہتا کہ میرا حسب و نسب مجھے بلند کر رہا ہے بلکہ تقوی و طہارت اور پرہیزگاری ہی کسی کو فوقیت دیتی ہے یہ مسلم ہے لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ وہ لوگ اولادِ ہونے کی وجہ سے سب سے بلند و بالا ہیں اور رہیں گے۔

کیا آپ یہ بتانا گوارہ کریں گے کہ اس دور کا کوئی سب سے بڑا متقی جو دن رات یادِ الہی، خوفِ خدا، عشقِ رسول، پابندیِ شرع اور تقاضاے ایمانی و مسلمانی کو ہمہ وقت انجام دے رہا ہو، وہ کسی ادنی سے ادنی صحابی سے افضل ہو سکتا ہے؟ تو آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیوں؟ اسی لیے نا کہ صحابہ کرام کو دیدار و صحبتِ محبوب کائنات مل گئی، جو ان کے لیے سب سے بڑی دولت ہے اور یہ بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ تقوی و پرہیز گاری نہیں ہے بلکہ شرف ہے۔ تو سنیے صاحب! جب دیدار و صحبت سے اتنا بڑا مقام مل سکتا ہے تو کیا خون ہونے کا کوئی مقام نہیں ملے گا۔

اخیر ایک میں اتنا عرض ہے کہ جناب عالی خدا را کہیں کا غصہ کہیں نہ نکالا کریں اگر آپ کو کسی سے اختلاف ہے تو اس کا مطلب ہر گز نہیں آپ اس اختلاف اور دشمنی کی آڑ میں پوری قوم کو برا بھلا کہیں گے۔ اللہ کرے آپ کے دل میں میری بات اتر جائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلى الله عليه وسلم

از محمد فیضان رضا علیمی ، سیتامڑھی

مدیر اعلی سہ ماہی پیامِ بصیرت

faizanrazarazvi78692 @gmail.com

Leave a Reply