کیا ہمارے اعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا ہمارے اعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں ؟؟؟
الجواب
وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته
جی ہاں ! ہمارے اعمال حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔
اقول و باللہ التوفیق:اس مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ہر روز صبح اور شام اُمّت کے تمام اعمال سید عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔امت کے نیک اعمال پر آپ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے جبکہ برے اعمال پر بخشش طلب فرماتے ہیں۔
وتعرض أعمال أمته عليه،ويستغفر لهم، روى بن المبارك عن سعيد بن المسيب قال: "ليس من يوم إلا وتعرض على النبي صلى الله عليه وسلم أعمال أمته غدوة وعشيًا فيعرفهم بسيماهم وأعمالهم”.
"وتعرض عليه أعمال أمته” حسنها وسيئها فيحمد الله على حسنها، "ويستغفر لهم” سيئها، وروى البزار بسند جيد عن ابن مسعود، رفعه: "حياتي خير لكم ومماتي خير لكم، تعرض عليّ أعمالكم، فما كان من حسن حمدت الله عليه، وما كان من سيئ استغفرت الله لكم” أي: طلبت مغفرة الصغائر وتخفيف عقوبات الكبائر، وظاهره أن المراد عرض أعمال المكلفين، إذ غير المكلف لا ذنب له، ويحتمل العموم، وذلك العرض كل يوم مرتين كما "روى ابن المبارك” عبد الله، الذي تستنزل الرحمة بذكره "عن سعيد بن المسيب” التابعي الجليل ابن الصحابي، "قال: ليس من يوم إلا وتعرض على النبي صلى الله عليه وسلم أعمال أمته غدوة وعشيًا” زيادة إكرام لهم، "فيعرفهم بسيماهم وأعمالهم” فيحمد الله ويستغفر لهم، فإذا علم المسيء ذلك قد يحمله على الإقلاع، ولا يعارضه قوله صلى الله عليه وسلم: "تعرض الأعمال كل يوم الاثنين والخميس على الله، وتعرض على الأنبياء والآباء والأمهات يوم الجمعة، فيفرحون بحسناتهم، وتزداد وجوههم بياضًا وإشراقًا، فاتقوا الله ولا تؤذوا موتاكم”، رواه الحكيم الترمذي، لجواز أن العرض على النبي صلى الله عليه وسلم كل يوم على وجه التفصيل، وعلى الأنبياء، ومنهم نبينا على وجه الإجمال يوم الجمعة، فيمتاز صلى الله عليه وسلم بعرض أعمال أمته كل يوم تفصيلا، ويوم الجمعة إجمالا، ويأتي إن شاء الله تعالى وجه أن مماته خير في المقصد العاشر.
(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،جلد 7،صفحہ 374،دار الكتب العلمية)
مجدد اعظم،شيخ الاسلام و المسلمین،امام اہل سنت،سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں:حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر اعمالِ اُمت پیش کیے جانے کو غلط و محض افترا کہنا غلط و محض افترا ہے۔
(1):بزار اپنی مسند میں بسندِ صحیح جیدّ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے مجھ سے باتیں کرتے ہو اور ہم تم سے باتیں کرتے ہیں، اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے جب بھلائی دیکھوں گا حمدِ الہٰی بجالاؤں گا اور جب برائی دیکھوں گا تمہاری بخشش چاہوں گا۔(البحرالزخار المعروف بمسند البزار،حدیث 1925)
(2):مسند حارث میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:میری جینا تمہارے لیے بہتر ہے مجھ سے باتیں کرتے ہو اور ہم تمہارے نفع کی باتیں تم سے فرماتے ہیں،جب میں انتقال فرماؤں گا تو میری وفات تمہارے لیے خیر ہو گی،تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے اگر نیکی دیکھوں گا حمد الہٰی کروں گا اور دوسری بات پاؤں گا تو تمہاری مغفرت طلب کروں گا۔
(3):امام ترمذی محمد بن علی والدِ عبد العزیز سے راوی،رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:۔ہر دو شنبہ و پنجشنبہ کو اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور ہر جمعہ کو انبیاء اور ماں باپ کے سامنے،وہ نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں اور انکے چہروں کی نورانیت اور چمک بڑھ جاتی ہے،تو اللہ سے ڈرو اور اپنے مردوں کو اپنی بد اعمالیوں سے ایذا نہ دو۔(نوادر الاصول،الاصل السابع والستون والمائۃ،صفحہ 213)
(فتاوی رضویہ،جلد 29،صفحہ 521،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
ایک دوسرے مقام پہ امام اہل سنت،امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:صرف درود و سلام ہی نہیں بلکہ امت کے تمام اقوال و افعال و اعمال روزانہ دو وقت سرکارِ عرش وقار،حضور سید الابرار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم (کی خدمت) میں عرض (یعنی پیش) کئے جاتے ہیں۔احادیث کثیرہ میں تصریح ہے کہ مطلقا اعمال حسنہ و سیئہ(یعنی ہر طرح کے اچھے اور برے عمل) سب حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور یونہی تمام انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام اور والدین و اعزاء و اقارِب سب پر عرض اعمال (یعنی اعمال کی پیشی) ہوتی ہے۔فقیر نے اپنے رِسالہ ”سَلْطَنَۃُ الْمُصْطَفٰی فِیْ مَلَکُوْتِ کُلِّ الْوَرٰی“ میں وہ سب حدیثیں جمع کیں،یہاں اسی قدر بس (یعنی کافی) ہے کہ امامِ اَجَل عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: لَيْسَ مِنْ يَوْمٍ اِلَّا وَتُعْرَضُ عَلَى النَّبِى صلَّى الله عليه وسلَّم اَعْمَالُ اُمَّتِهٖ غُدْوَةً وَّعَشِيّاً فَيَعْرِفُهُمْ بِسِيْمَاهُمْ وَاَعْمَالِهِم
یعنی کوئی دن ایسا نہیں جس میں نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلَّم پران کی اُمّت کے اعمال صبح و شام دو دفعہ پیش نہ ہوتے ہوں،تو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم انہیں ان کی نشانیٔ صورت سے بھی پہچانتے ہیں اور ان کے اعمال سے بھی،صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم۔
فقیرغفراللہ تعالٰی لہ بتوفیق اللہ عزوجل اس مسئلے میں ایک کتابِ مبسوط(یعنی تفصیلی کتاب)لکھ سکتا ہے مگر مُنْصِف (یعنی انصاف کرنے والے) کے لئے اسی قدر وافی،اورخدا ہدایت دے تو ایک حرف کافی۔
(فتاوی رضویہ،جلد 29،صفحہ 568،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
مزید تفصیل کے لیے امام اہلسنت کا رسالہ ازاحۃ العیب بسیف الغیب کا مطالعہ فرمائیں جو جلد 29 میں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدہ المذنب سید کامران عطاری مدنی عفی عنہ