کیا ہم عاشقِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں؟
میرے آقا کے دیوانوں! ہمارے لیے خود کو عاشقِ رسول بولنا تو بہت آسان ہے- لیکن عملی زندگی میں ایک سچا عاشق رسول بننا بہت دشوار تو نہیں ہیں، مگر ہم بننا ہی نہیں چاہتے- اور جب ہم عاشق رسول نہیں تو ہمارا دنیا میں رہنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں-
کیوں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ و الناس اجمعین”
یعنی تم میں سے کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا، جب تک وہ مجھے اپنے والد، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرے-
انصار کی ایک عورت جو سرکار ﷺ کی اس حدیث مبارکہ کی مکمل تفسیر تھی-
بیان کیا جاتا ہے کہ جنگ احد میں اس کا باپ، بھائی اور شوہر سبھی شریک تھے- حق و باطل کی لڑائی ہو رہی تھی- ایمان و کفر کا مقابلہ ہو رہا تھا- وہ عورت لڑائی کے حالات معلوم کرنے کے لیے میدان جنگ کی طرف جا رہی تھی- راستے میں لوگ آتے ہوئے ملے- انہوں نے پوچھا:
اے لوگو! بتاؤ کہ میرے آقا ﷺ کیسے ہیں؟ کسی نے کہا: اے خاتون! تیرا باپ شہید ہو گیا- عورت نے کہا: میں باپ کو نہیں پوچھتی- یہ بتاؤ کہ میرے آقا ﷺ کا کیا حال ہے؟ کسی نے کہا: اے خاتون! تیرا بھائی بھی شہید ہو گیا- عورت نے کہا: مجھے بھائی کی پرواہ نہیں- یہ بتاؤ کہ سرکار مدینہ ﷺ کیسے ہیں؟ لوگوں نے کہا: اے محترمہ! تیرا شوہر بھی شہید ہو گیا ہے- مگر قربان جاؤ- اس حوصلہ مند عورت پر کہ وہ جھنجھلا کر کہتی ہے کہ اے لوگو! میں اپنے باپ کے بارے میں نہیں پوچھ رہی ہوں کہ میرا باپ شہید ہو گیا یا زندہ ہے- میرا شوہر قتل کر دیا گیا یا باحیات ہے- میرا بھائی مارا گیا یا خیریت سے ہے- بلکہ میں صرف یہ سننا چاہتی ہوں کہ میرے آقا ﷺ کیسے ہیں؟
میرے سرکار کس حال میں ہیں ؟
لوگوں نے بتایا کہ اے خاتون! رحمۃالعالمین بخیر و عافیت ہیں- عورت یہ بات سنتے ہی خوشی سے جھوم جاتی ہے-
اسی لیے تو کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
بڑھ کے اس نے رخِ روشن کو جو دیکھا تو کہا
تو سلامت ہے تو سب ہیچ ہیں یہ رنج و الم
میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہِ دیں! تیرے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
اور جب ہم خود کا جائزہ لیتے ہیں تو کبھی ہم پر دنیا کی محبت غالب آتی ہے تو کبھی اور کسی چیز کی- مگر ہونا تو اس طرح چاہیے تھا کہ تمام تر چیز پر سرکار دو عالم ﷺ کی محبت غالب آنی چاہیے تھی- سرکار مدینہ ﷺ کا عشق غالب آنا چاہیے تھا-
اور عشق کی تعریف بھی یہی ہے کہ جو شخص جس سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کے احکام کی موافقت اور اتباع کو اپنی ذات پر لازم کر لیتا ہے اگر وہ اس طرح نہیں کرتا ہے تو وہ اپنے دعویِ محبت میں صادق نہیں ہوتا-
بلا تمثیل و تشبیہ جو حضور اکرم ﷺ سے محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اتباع نبوی نہیں کرتا وہ اپنے دعویِ محبت میں سچا نہیں ہے
جب وہ دعویِ محبت میں سچا نہیں تو اسے خود کو عاشق رسول کہلانے کا بھی حق حاصل نہیں
کیوں کہ سرکار مدینہ ﷺ کی گستاخی ہو رہی ہے اور ہم خاموش ہیں- صحابہ کرام کی گستاخی ہو رہی ہے ہم خاموش ہیں- اہل بیت عظام کی گستاخی ہو رہی ہے ہم خاموش ہیں- اولیاے کرام کی گستاخی ہو رہی ہے اور ہم خاموش ہیں- یہاں تک کہ اسلام پر حملہ کیا جا رہا ہے تب بھی ہم خاموش ہیں-
کیا یہ سب حالات دیکھنے کے بعد بھی ہمارا خاموش رہنا عاشق ہونے کی دلیل ہے؟
عاشق تو بہت دور کی بات ہے، ہمیں تو خود کو مسلمان بولنے میں بھی شرم آنا چاہیے-
ہمیں دشمنوں سے اتنا ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ کوئی بھی آتا ہے اور ہمارے سرکار مدینہ ﷺ اور اسلام کو برا بھلا بولتا ہے اور ہم خاموش رہتے ہیں کیا یہی عشق ہے ہمارا؟
کیا یہی محبت ہے ہماری؟
جب ہم صحابہ کرام کے عشق رسول کا مطالعہ کریں گے تو ہم کو پتا چلےگا کہ عشق رسول ہوتا کیا ہے اور عشق رسول بولا کس کو جاتا ہے- محبت رسول ہوتی کیا ہے اور محبت رسول بولی کس کو جاتی ہے-
ہم نے تو نعرے بازی کو ہی عشق رسول سمجھا ہے
ہم نے تو نعرے بازی کو ہی محبت رسول سمجھا ہے
چلیں میں آپ کو ایک صحابی رسول کے عشق کا واقعہ بتاتا ہوں- جس میں آپ نے ایک گستاخ رسول کو کس طرح واصل جہنم کیا تھا ۔
حضرت عبداللہ بن حارث اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عصماء یہودیہ جو کہ رسول اللہ کی گستاخی کیا کرتی تھی یہ خبر جب حضرت عمیر بن عدی کو پہنچی تو آپ نے نذر مانی کہ اگر سرکار مدینہ ﷺ بدر سے خیریت سے واپس تشریف لے آئے تو میں ضرور اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا ۔ سرکار مدینہ جب بدر سے تشریف لائے تو حضرت عمیر بن عدی رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہوئے تو وہاں اس کے پاس اس کے بچے سو رہے تھے ایک بچہ دودھ پی رہا تھا- روایت میں کہیں ذکر نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کسی کی مدد سے وہاں گئے پھر کیسے گئے ۔
اس کا جواب قلندر لاہوری ڈاکٹر اقبال نے دیا
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ہاتھ سے پیچھے کیا اور تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے صبح کی نماز سرکار مدینہ کے ساتھ ادا کی سرکار مدینہ نے جب سلام پھیرا اور عمیر بن عدی کی طرف دیکھا اور فرمایا: "اے عمیر بن عدی! تم نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا- عرض کی: جی ہاں! پھر آپ رضی اللہ تعالی نے ڈرتے ہوئے عرض کی: یارسول اللہ! مجھ پر کچھ لازم تو نہیں یعنی میں نے عدالت کی اجازت کے بغیر اسے قتل کر دیا- کیا اب مجھے اس کے بدلے قتل کیا جائےگا؟ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں یعنی جو گستاخ رسول کا سر تن سے جدا کرے، اس سے قصاص نہیں لیا جاتا- بلکہ اس کو تو انعام سے نوازا جاتا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اگر تم ایسا شخص دیکھنا چاہتے ہو جس نے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غائبانہ خدمت کی ہے تو وہ عمیر بن عدی کو دیکھ لے-
حضرت عمر بولے اس نابینا کو دیکھو جس نے رات کے وقت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی غائبانہ خدمت کی سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! ان کو نابینا نہ کہو یہی تو آنکھ والے ہیں-
اس سے معلوم ہوا کہ آنکھ اس وقت آنکھ بنتی ہے سر اس وقت سر بنتا ہے اور دل اس وقت دل بنتا ہے جب سرکار مدینہ کی دفاع کے لیے وہ کام کرے- تو وہ آنکھ آنکھ ہی نہیں وہ سر سر ہی نہیں جو سرکار مدینہ کے دفاع کے لیے استعمال نہ ہو- یہاں تک کہ ہمارا وجود اس وقت وجود بنتا ہے جب ہم سرکار مدینہ کے دفاع کے لیے میدان عمل میں آتے ہیں ورنہ ہمارا وجود وجود ہی نہیں ۔
عشق رسول صحابہ کرام کے دلوں کی دھڑکن بن چکا تھا اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کی محبت و غلامی میں اتنا منہمک وہ مستغرق ہو چکے تھے کہ انہیں دنیا کی کسی چیز اور کسی نسبت سے کوئی غرض نہ تھی- وہ سب کچھ برداشت کر سکتے تھے لیکن انہیں یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی ان کے دلوں کا چین، رحمت کونین کی شان اقدس میں ادنیٰ سی بھی بے ادبی کی جراءت کرے-
کوئی سرکار مدینہ ﷺ کی گستاخی کرتا تو صحابہ کرام اس کا سر تن سے جدا کر دیتے کیونکہ سرکار مدینہ ﷺ نے قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے فرمایا:
"من سب نبیا فاقتلوہ”
یعنی جو شخص بھی کسی نبی کی گستاخی کرے اس کو کاٹ کے رکھ دو ۔
صحابہ کرام اس حدیث مبارکہ کے مصداق تھے جب کوئی بھی سرکار مدینہ ﷺ کی گستاخی کرتا صحابہ کرام اسے کاٹ کر رکھ دیتے
احادیث کی کتب ان واقعات سے بھری پڑی ہیں
ان میں سے ایک واقعہ بغور پڑھیں
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ مشہور اور جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں- فرماتے ہیں: میں بدر کی لڑائی میں میدان میں لڑنے والوں کی صف میں کھڑا تھا میں نے دیکھا کہ میرے دائیں اور بائیں جانب انصار کے دو کم عمر لڑکے تھے مجھے خیال ہوا کہ میں اگر کوئی اور مستحق لوگوں کے درمیان ہوتا تو اچھا تھا کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں میرے دونوں جانب بچے ہیں یہ کیا مدد کر سکیں گے اتنے میں ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: چاچا جان! تم ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں پہچانتا ہوں! تمہاری کیا غرض ہے- انہوں نے کہا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں بکتا ہے- اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میں اس سے جدا نہیں ہوؤں گا یہاں تک کہ وہ مرجائے یا میں مر جاؤں مجھے ان کے سوال و جواب پر تعجب ہوا اتنے میں دوسرے نے بھی یہی سوال کیا اور جو پہلے نے کہا تھا وہیں اس نے بھی کہا تو اسی وقت ابو جہل نظر آ گیا میں نے ان دونوں سے کہا تمہارا مطلوب جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کر رہے تھے وہ جا رہا ہے دونوں یہ سن کر تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے ایک دم بھاگے چلے گئے اور جا کر اس پر تلوار چلانا شروع کر دیا یہاں تک کہ اس کو گرا دیا اور انہوں نے اس ابو جہل کو جہنم واصل کر دیا
ان دو بچوں کو بولا جاتا ہے سچا و پکا عاشق رسول – ان کے اندر اتنی غیرت تھی کہ یہ حضور اکرم ﷺ کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور ایک ہم ہیں کہ اتنے بےغیرت ہوگئے کہ سرکار مدینہ ﷺ کی اتنی گستاخیاں ہو رہی ہیں اور ہم خاموش ہیں نا ہی کچھ کرتے ہیں- کرنے کی بات تو بہت دور ہے ہم کچھ بولتے بھی نہیں ہیں- جب کہ اہل سنت و جماعت اشاعرہ و ماتریدیہ کے علماء کا فیصلہ ہے کہ گناہ کبیرہ کرنے والا شخص کافر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے نیک اعمال ضائع ہوتے ہیں- اعمال صرف اسی وقت ضائع ہوتے ہیں جب بندہ کافر ہو جائے آپ اس حقیقت کو قرآن مجید کی ایک آیت مقدسہ کی روشنی میں سمجھیں-
فرمان باری تعالی ہے:
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور نہ ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات کہو جس طرح ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو
معلوم ہوا کہ سرکار مدینہ ﷺ کی آواز کے ساتھ برابری کرنے سے سارے اعمال برباد ہو جاتے ہیں اور یہ خطاب ان صحابہ کرام کو کیا جارہا ہے جن کو بے ادبی کرنے آتی ہی نہیں تھی- اصل میں ان کے ذریعے بعد میں آنے والوں کو خبردار کیا جارہا ہے جب رب عزوجل سرکار مدینہ ﷺ سے بلند آواز میں لوگوں کا بات کرنا برداشت نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالی سرکار دو عالم ﷺ کی گستاخی کو کیسے برداشت کرے گا ؟ جو آواز بلند ہونے پر اتنی سخت تنبیہ فرما رہا ہے وہ گستاخی ہونے پر کیا حکم دےگا ؟
اور ایک بات یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے روزہ سال میں ایک مہینہ فرض ہے نماز دن میں پانچ وقت فرض ہے مگر سرکار مدینہ ﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنا ہر وقت ضروری ہے
میری تحریر کا حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے سرکار مدینہ ﷺ کی ناموس کی حفاظت فرمائی- اسی طرح ہمیں بھی سرکار مدینہ ﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنا ہے کسی بھی طرح اور میری آخری بات
حضور اکرم ﷺ کی محبت کی علامت یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی پیروی کی جائے اور سنت نبوی پر عمل کیا جائے تمام اقوال و افعال میں حضور اکرم ﷺ کی اتباع کی جائے اور آپ کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے جن افعال پر عمل کرنے کی حضور ﷺ نے تاکید فرمائی اور ہر اس کام سے پرہیز کیا جائے جس کی حضور اکرم ﷺ نے ممانعت فرمائی عیش و آرام و مسرت میں ہی نہیں بلکہ ہر حال میں حضور اکرم ﷺ کے طرز عمل سے نصیحت و موعظت حاصل کی جائے
اور دوسری علامت یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کا ذکر کیا جائے- کیونکہ ہر محب اپنے محبوب کا ذکر بہت کثرت سے کرتا ہے اور ہر حال میں حضور اکرم ﷺ کی ناموس کی حفاظت کرتا ہے
بس اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہی دعا ہے کہ اللہ ہمیں حضور اکرم ﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے- جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے فرمائی تھی- اور صحابہ کرام کی طرح عشق رسول عطا فرمائے-
آمین بجاہ سید المرسلین و النبین
از قلم: ثاقب شیخ مجازی صابری ممبئی