اگر ایک گھر میں کئی فرد مالک نصاب ہوں تو کیا سب پر قربانی واجب ہے؟

اگر ایک گھر میں کئی فرد مالک نصاب ہوں تو کیا سب پر قربانی واجب ہے؟

حضور مفتی محمد نظام الدین مصباحی صدر شعبہ افتا دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضور کی بارگاہ میں ایک مسئلہ عرض ہے کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کے چار بیٹے ہیں زید اب کوئی کام نہیں کرسکتا اس کا خرچ اس کے لڑکے چلاتے ہیں اب قربانی کس کے نام سے ہوگی زید یا اس کے لڑکے کے نام سے ، جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں.

سائل: محمد بدرالزماں تدریسی

خطیب و امام جامع مسجد تکیوا پڑیا


الجواب:

ہمارے مذہبِ حنفی کے اعتبار سے اگر ایک مشترکہ خاندان میں کئی عاقل بالغ قربانی کے لحاظ سے مالکِ نصاب ہوں اور حالتِ سفر میں نہ ہوں تو سب پر قربانی واجب ہوتی ہے، اس لیے صورتِ مسئولہ میں اگر زید کے پاس حاجتِ اصلیہ کے علاوہ اتنا مال ہو جس سے وہ مالکِ نصاب ہوجاتا ہو(یعنی: اتنا روپیہ، یا کھیت یا کرایہ پر دیا گیا گھر وغیرہ جس کی قیمت کے قربانی کے دنوں میں قیمت ساڑھے باون تولہ، یعنی ٦۵٣/گرام اور ١٠٠/ملی گرام چاندی کے برابر ہوجاتی ہو) تو زید پر قربانی واجب ہوگی اور اس کے چاروں بیٹے بھی اگر مالکِ نصاب ہیں تو ان پر بھی قربانی واجب ہوگی۔اور بعض مالکِ نصاب ہوں بعض نہ ہوں تو جو مالکِ نصاب ہیں ان پر قربانی واجب ہوگی اور جو مالکِ نصاب نہیں ہیں ان پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔

حاصل یہ ہے کہ اگر باپ اور اس کے بالغ بیٹے سب مالکِ نصاب ہیں تو سب پر قربانی واجب ہے اور اگر چاروں بیٹے تو مالکِ نصاب ہوں ، لیکن باپ مالکِ نصاب نہ ہو تو بیٹوں پر قربانی واجب ہوگی، باپ پر واجب نہیں ہوگی۔اور اگر بعض بیٹے مالکِ نصاب ہیں، بعض نہیں تو صرف مالک نصاب پر قربانی واجب ہوگی۔

فتاوی عالم گیری میں ہے:

"”وَمَنْ بَلَغَ مِنْ الصِّغَارِ فِي أَيَّامِ النَّحْرِ وَهُوَ مُوسِرٌ تَجِبُ عَلَيْهِ بِالْإِجْمَاعِ بَيْنَ أَصْحَابِنَا، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.

وَلَا تَجِبُ عَلَى الْمُسَافِرِينَ”

یوں ہی اگر شوہر اور بیوی دونوں قربانی کے اعتبار سے مالکِ نصاب ہوں تو دونوں پر قربانی واجب ہوگی، اور اگر ان میں کوئی ایک مثلا: بیوی مالک نصاب ہے اور شوہر مالکِ نصاب نہیں ہے تو بیوی پر قربانی واجب ہوگی شوہر پر نہیں۔

در مختار میں ہے:

"وَشَرَائِطُهَا: الْإِسْلَامُ وَالْإِقَامَةُ وَالْيَسَارُ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِهِ) وُجُوبُ (صَدَقَةِ الْفِطْرِ) كَمَا مَرَّ (لَا الذُّكُورَةُ فَتَجِبُ عَلَى الْأُنْثَى) خَانِيَّةٌ”.

(در مختار مع رد المحتار ج٩ ص ۴۵٢ ، ۴۵٣)

ہاں! باپ پر اس کے مالدار نابالغ لڑکوں کی طرف سے نہ یہی واجب ہے کہ ان کے مال سے قربانی کرے اور نہ یہی واجب ہے کہ اپنے مال سے ان کی طرف سے قربانی کرے، ہاں! اپنے مال سے ان کی طرف سے قربانی کرنا مستحب ضرور ہے، البتہ مالدار باپ پر اپنی نابالغ اولاد کی طرف سےصدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"(قَوْلُهُ لَا عَنْ طِفْلِهِ) أَيْ مِنْ مَالِ الْأَبِ ط (قَوْلُهُ عَلَى الظَّاهِرِ) قَالَ فِي الْخَانِيَّةِ: فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ وَلَا يَجِبُ، بِخِلَافِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ. وَرَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ يَجِبُ أَنْ يُضَحِّيَ عَنْ وَلَدِهِ وَوَلَدِ وَلَدِهِ الَّذِي لَا أَب لَهُ، وَالْفَتْوَى عَلَى ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ اهـ وَلَوْ ضَحَّى عَنْ أَوْلَادِهِ الْكِبَارِ وَزَوْجَتِهِ لَا يَجُوزُ إلَّا بِإِذْنِهِمْ. وَعَنْ الثَّانِي أَنَّهُ يَجُوزُ اسْتِحْسَانًا بِلَا إذْنِهِمْ بَزَّازِيَّةٌ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی، یوپی۔

٢۵/ذو القعدة ١۴۴٢ھ//٧/جون ٢٠٢١ء

1 thought on “اگر ایک گھر میں کئی فرد مالک نصاب ہوں تو کیا سب پر قربانی واجب ہے؟”

Leave a Reply