کائنات حضور کے لیے بنائ گئی ہے اس پر دلائل کیا ہیں
سوال : امت میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کائنات بنائی گئی ہے تو آپ دلیل سے جواب دیں کہ یہ بات کہاں سے آئی اور کس نے کہی ہے؟
سا ئل : شہروز شہر میانوالی
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
یقینا یہ تمام کائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہی بنائی گئی ہے اور یہ بات کئی احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے ۔
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی الله عنهما فرماتے ہیں :
"اوحی الله الی عيسی عليه السلام : يا عيسی! امن بمحمد و امر من ادرکه من امتک ان يومنوا به فلولا محمد ما خلقت ادم و لو لا محمد ما خلقت الجنة و لا النار و لقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب فکتبتُ عليه لا اله الا الله محمد رسول الله فسکن۔ ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ”
یعنی اللہ پاک نے عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خود بھی ایمان لاؤ اور اپنی اس امت کو بھی حکم دو کہ جو ان کا زمانہ پائے وہ بھی ان پر ایمان لائے۔ پس اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہ فرماتا تو آدم علیہ السلام کو پیدا نہ فرماتا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہ فرماتا تو نہ جنت کو اور نہ دوزخ کو پیدا فرماتا، اور البتہ تحقیق میں نے پانی پر عرش پیدا کیا تو وہ کانپنے لگا تو میں نے اس پر "لا الہ الا الہ محمد رسول اللہ” (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں) لکھا تو وہ ساکن ہوگیا۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام بخاری و امام مسلم رحمۃ اللہ علیھما نے اسے روایت نہیں کیا۔
(المستدرک للحاکم علی الصحیحین، من کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی ھی دلائل النبوۃ، جلد 2 صفحہ 671، رقم الحدیث : 4227، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
نوٹ :
اس سند کے راوی درج ذیل ہیں :
1- علی بن حمشاد :
ان کو امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ، عادل، حافظ کہا۔
(سیر اعلام النبلاء)
2- ھارون بن عباس ہاشمی :
ان کو خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ کہا۔
(تاریخِ بغداد)
3- جندل بن والق :
ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ کہا۔
(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال)
اور ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ صدوق کہا۔
(تاریخ الاسلام)
4- عمرو بن اوس انصاری :
یہ تراجم کی کتب میں اگرچہ مجہول ہیں لیکن ان کا مجہول ہونا مضر نہیں کیونکہ ایک تو امام حاکم نے اس کو سنداً صحیح کہا اور جب کوئی محدث کسی سند کو صحیح کہہ دے تو یہ اس بات کی علامت ہوا کرتا ہے کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
دوسرا ان کے متابع سعید بن اوس انصاری ہیں، جن سے منقول روایت "طبقات المحدثین باصبہان و الواردین علیھا، جلد 3 صفحہ 287 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت” میں ہے اور انہیں عبدالرحمن انصاری انباری رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ کہا۔
(نزھۃ الالباء فی طبقات الادباء)
اور خطیب بغدادی نے بھی انہیں ثقہ کہا۔
(تاریخ بغداد)
جبکہ ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے صدوق کہا۔
(تہذیب التہذیب)
5- سعید بن ابی عروبہ :
امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں حضرت ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا کہ یہ اصحاب قتادہ میں سے زیادہ حافظ تھے۔
(الجرح و التعدیل جلد 4 صفحہ 65 داراحیاء التراث العربی بیروت)
ابن سعد بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ثقہ اور کثیرالحدیث کہا۔
(الطبقات الکبریٰ، الطبقۃ الخامسۃ، جلد 7، صفحہ 273، دار صادر بیروت)
6- قتادہ رحمۃ اللہ علیہ:
مشہور و معروف ثقہ راوی، جن کی شان میں بےشمار اقوال علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیے ہیں۔
(تہذیب التہذیب)
7- سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ:
مشہور و معروف تابعی ہیں، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ تابعین میں سب سے افضل ہیں۔
(تہذیب التہذیب)
8- عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما:
یہ صحابی ہیں اور ہر صحابی عادل ہے۔
اشکال :
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے المستدرک کی اس حدیث پر اس طرح حاشیہ تحریر فرمایا :
"(التعلیق من تلخیص الذھبی) اظنہ موضوعا علی سعید”
یعنی (تعلیق ذہبی کی تلخیص سے یہ ہے کہ) میں سعید کے سبب اس حدیث کو موضوع گمان کرتا ہوں۔
(المستدرک للحاکم علی الصحیحین، من کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی ھی دلائل النبوۃ، جلد 2 صفحہ 671، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
تو اس وجہ سے بعض لوگ اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں حالانکہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے گمان میں سعید بن ابی عروبہ کی وجہ سے حدیث کو موضوع کہا حالانکہ ان کے حوالے سے پیچھے کلام گزر چکا کہ یہ اصحابِ قتادہ میں سے زیادہ حافظ تھے، ثقہ راوی تھے، کثیرالحدیث تھے۔
البتہ آخری عمر میں انہیں اختلاط ہوگیا تھا لیکن اختلاط کی وجہ حدیث موضوع نہیں ہوتی بلکہ ضعیف ہوتی ہے، اور دوسری بات یہ کہ اختلاط سے پہلے جو روایات مروی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں تو جب انہیں اختلاط ہوا تو اس کے بعد ان سے صرف وکیع اور معافی بن عمران موصلی نے سماع کیا۔
(تاریخ الثقات، باب السین المھملۃ، صفحہ 187 مطبوعہ دارالباز)
تو اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمرو بن اوس انصاری اور سعید بن اوس انصاری نے سعید ابن ابی عروبہ سے اختلاط پہلے وہ حدیث روایت کی ہے لہذا وہ حدیث مقبول ہے اور چونکہ ثابت ہوگیا کہ اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں لہذا یہ صحیح حدیث ہے اور اسے موضوع قرار قطعاً درست نہیں۔
(دلائل احناف مُلَخَّصاً صفحہ 63، 64، 65 اشاعت الاسلام پبلیکیشنز لاہور)
مزید کئی اور احادیث بھی ہیں جو اس صحیح حدیث پر شاہد ہیں :
امام ابوالحسن احمد بن محمد رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے :
"انت اکرم من خلقت علی و احب من خلقت الی، لولاک ما خلقت الدنیا، لولاک ما خلقت الآخرۃ، و لولاک ما خلقت الجنۃ، و لولاک ما خلقت النار، و لولاک ما خلقت آدم علیہ السلام”
یعنی میں نے جو پیدا فرمایا، ان میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ تو مکرم و محبوب ہے، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں دنیا کو پیدا نہ فرماتا، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں آخرت کو پیدا نہ فرماتا، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں جنت کو پیدا نہ فرماتا، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں جہنم کو پیدا نہ فرماتا، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ فرماتا۔
(فوائد منقاۃ من روایۃ الشیخین ابی الحسن احمد بن محمد بن الصلت و ابی عبیداللہ بن محمد بن ابی مسلم الفرضی، صفحہ 69 دارالبشائر الاسلامیہ)
امام معمر بن عبدالواحد قرشی عبشمی سمرقندی اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"ان اللہ تعالیٰ اوحی الی : و عزتی و جلالی لولاک ما خلقت الجنۃ، و لو لاک ما خلقت الدنیا”
اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو جنت کو پیدا نہ فرماتا، اور اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو دنیا کو پیدا نہ فرماتا۔
(موجبات الجنۃ، باب ان الجنۃ خلقت لنبینا صلی اللہ علیہ وسلم، صفحہ 282 مکتبۃ عباد الرحمن)
کنز العمال میں ایک روایت نقل کی گئی ہے، الفاظ یہ ہیں۔
أتاني جبرئیل فقال :
"یا محمد لولاک ماخلقت الجنۃ و لولاک ماخلقت النار”
یہ روایت حضرت عبد اللہ بن عباس کی ہے، مسند الفردوس دیلمی سے نقل کی گئی ہے۔
(کنزالعمال جلد 11 صفحہ 194، رقم الحدیث : 32021)
علامہ ابوالحسن ملا علی بن سلطان قاری ہروی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
حدیث لولاک لما خلقت الأفلاک. قال الصنعاني : انہ موضوع، کذا في الخلاصة، لکن معناہ صحیح، قد روی الدیلمي عن ابن عباس رضي اللہ عنھما مرفوعًا : ”أتاني جبرئیل فقال : یا محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) لولاک ما خلقت الجنة، و لولاک ما خلقت النار“
یعنی امام صنعانی رحمۃ اللہ علیہ نے "لولاک لما خلقت الأفلاک” والی حدیثِ مبارکہ کو موضوع کہا ہے، ایسے ہی "خلاصہ” میں ہے، لیکن اس حدیث کے معنی صحیح ہیں، پس تحقیق امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مرفوعاً روایت کیا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور عرض کی کہ (اللہ پاک فرماتا ہے) : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جنت کو پیدا نہ فرماتا، اور اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جہنم کو پیدا نہ فرماتا۔
(الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ المعروف بالموضوعات الکبریٰ، جلد 1 صفحہ 295 موسسۃ الرسالۃ بیروت)
صاحبِ کشف الخفاء رحمۃ اللہ علیہ نے ’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ والے الفاظ کے ساتھ کشف الخفاء میں صنعانی کے حوالہ سے نقل کرکے موضوع لکھا ہے، مگر ساتھ ہی لکھا کہ :
’’ولکن معناہ صحیح‘‘
اور لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔
(کشف الخفاء، جلد 2، صفحہ 148)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یہ ضرور صحیح ہے کہ ﷲ عزوجل نے تمام جہان حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے لیے بنایا، اگر حضور نہ ہوتے کچھ نہ ہوتا۔ یہ مضمون احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے جن کا بیان ہمارے رسالہ "تلالؤ الافلاک بحلال احادیث لولاک” میں ہے اور انہی لفظوں کے ساتھ شاہ ولی ﷲ صاحب محدث دہلوی نے اپنی بعض تصانیف میں لکھی مگر سنداً ثابت یہ لفظ ہیں :
"خلقت الدنیا و اھلھا لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی و لولاک یا محمد ماخلقت الدنیا”
(یعنی ﷲ عزوجل اپنے محبوب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ) میں نے دنیا اور اہلِ دنیا کو اس لیے بنایا کہ تمہاری عزت اور مرتبہ جو میری بارگاہ میں ہے ان پر ظاہر کروں، اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تم نہ ہوتے میں دنیا کو نہ بتاتا۔
(تاریخ دمشق الکبیر، ذکر عروجہ الی السماء جلد 3 صفحہ 297 داراحیاء التراث العربی بیروت)
اس میں تو فقط افلاک کا لفظ تھا اس میں ساری دنیا کو فرمایا جس میں افلاک و زمین اور جو کچھ ان
کے درمیان ہے سب داخل ہیں، اسی کو حدیث قدسی کہتے ہیں کہ وہ کلامِ الہی جو حدیث میں فرمایا گیا ایسی جگہ لفظی بحث کرکے عوام کے دلوں میں شک و شبہہ ڈالنا اور ان کے قلوب کو متزلزل کرنا ہر گز مسلمانوں کی خیر خواہی نہیں، اور
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
"الدین النصح لکل مسلم”
دین یہ ہے کہ آدمی ہر مسلمان کی خیر خواہی کرے.
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم الدین النصیحۃ الخ، جلد 1 صفحہ 13 قدیمی کتب خانہ کراچی، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، قدیمی کتب خانہ کراچی)
(فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 113 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
شارحِ بخاری، فقیہِ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے موضوعات کبیر میں صرف حدیث "لولاک لما خلقت الافلاک” کے بارے میں صنعانی کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس کو موضوع کہا، اپنی کوئی تحقیق ذکر نہیں کی ہے، بلکہ فرمایا :
"لکن معناہ صحیح فقد روی الدیلمی عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما مرفوعاً اتانی جبریل فقال یا محمد لولاک لما خلقت الجنۃ ولولاک لما خلقت النار وفی روایۃ ابن عساکر لولاک لما خلقت الدنیا”
(موضوعات کبیر، صفحہ 59)
(فتاویٰ شارح بخاری، جلد 1، کتاب العقائد، صفحہ 494)
اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتا ہے :
"بعض شروح نخبة الفکر میں دیکھا گیا ہے کہ حدیث مذکور (لولاک لما خلقت الأفلاک) کی تصحیح کی گئی ہے.”
(امداد الفتاویٰ جلد 5 صفحہ 79)
اشکال :
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ اللہ پاک نے یہ سب دنیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنائی ہے تو یہ اس آیتِ مبارکہ کے خلاف ہے جس میں اللہ پاک نے فرمایا :
"وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ”
ترجمہ : اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔
(پارہ 27، سورۃ الذریٰت: 56)
لہذا وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ اللہ پاک کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہے۔
جوابِ اشکال :
بعض لوگوں کا استدلال بالکل غلط ہے کیونکہ یہ آیتِ مبارکہ زندگی کے مقصد کے متعلق ہے کہ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ پاک کی عبادت کرنا ہے، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سببِ کائنات ہے، تو سبب اور مقصد کا متحد ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے لہذا دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں کہ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ پاک کی عبادت کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سببِ کائنات ہے اور آپ کے لئے ہی دنیا بنائی گئی ہے، جس پر احادیث گواہ ہیں تو جو لوگ ان دو باتوں میں تضاد سمجھ رہے ہیں تو یہ ان لوگوں کی سمجھ کی کمی اور جہالت ہے۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی