کیا بھائی کی کمائی میں دوسرے بھائی کا حصہ ہوتا ہے ؟
کیا فرماتے ہیں استاذ محترم مسئلہ ذیل میں (۱) : زید چھ بھائی ہے اور جائیداد کی تقسیم ابھی نہیں ہوئی ہے، لیکن رہنا سہنا سب بھائیوں کا الگ ہے ، زید نے اپنے ذاتی پیسے سے چار پراپرٹی خریدی ہے ، جس میں زید کے بھائیوں نے کچھ بھی پیسہ نہیں دیا ہے، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید نے جو چار پراپرٹی خریدی ہے اپنے پیسے سے اس میں دیگر بھائیوں کا حصہ ہے یا نہیں ؟ بیّنوا توجروا
(۲) زید کے ورثہ میں فی الوقت چار بیٹے ، چار بیٹیاں اور ایک ایک بیوی ہے ، تو زید کا ترکہ کیسے بٹے گا ؟ زید چاہتا ہے کہ میری زندگی میں سب کا حصہ الگ ہو جائے ، مزید یہ وضاحت بھی فرما دیں کہ بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں بھائی بہن کو ترکہ ملے گا یا نہیں؟ بیّنوا توجروا
سائل : محمد ارمان علی قادری علیمی
گونڈہ یو پی
نزیل حال: جالنہ مہاراشٹر
الجواب بعون الملک الوھاب
١-شرعی طور سے ایک بھائی کی کمائی اور اس کی ذاتی پراپرٹی میں بھائی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے.
اصل یہ ہے کہ بالغ لڑکا اگر اپنے مستقل ذریعہ کسب سے کوئی چیز حاصل کرتا ہے تو وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔اور اگر اس کا خوردونوش باپ کے ذمہ ہو اور وہ باپ کا معین ومددگار بن کر تجارت وزراعت وغیرہ کرتا ہے تو جملہ اسباب تجارت و زراعت کا مالک باپ ہوتا ہے بیٹا صرف معاون کے طور پر شریک کار مانا جائے گا۔ اور اگر باپ کے انتقال کے بعد یکجائی میں رہتے ہوئے باپ کی متروکہ جائیداد سے کمائی ہوئی تو اس میں تمام وارثین کا حصہ ہے۔ ہاں اگر کسی نے اپنے غیر مشترکہ خاص مال یا ملازمت سے کوئی مال حاصل کیا تو وہی اس کا مالک ہوگا۔ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"تجارت زراعت وغیرہا جس کام میں فرزند نے اپنے باپ کی اعانت ومددگاری کے طور پر کچھ کمایا وہ صرف ملک پدر ہے یعنی جب تک اس کا خورد ونوش ذمہ پدر تھا اور اپنا کوئی ذاتی مال وکسب جداگانہ نہ رکھتاتھا بلکہ اسے حرفت وکسب پدری میں جس طرح سعید بیٹے اپنے باپ کی اعانت کرتے اور اسے کام کی تکلیف سے محفوظ رکھتے ہیں اس کا معین ومددگار تھا تو جو کچھ ایسی وجہ وحالت میں کمایا سب باپ کا ہے جس میں بیٹے کے لئے کوئی حق ملک نہیں، فتاوٰی خیریہ پھر عقو دالدریہ میں ہے:حیث کان من جملۃ عیالہ والمعینین لہ فی امورہ واحوالہ فجمیع ماحصلہ بکدہ وتعبہ فھو ملک خاص لابیہ لاشیئ لہ فیہ حیث لم یکن لہ مال ولو اجتمع لہ بالکسب جملۃ اموال لانہ فی ذٰلک لابیہ معین حتی لو غرس شجرۃ فی ھذہ الحالۃ فھی لابیہ نص علیہ علماؤنا رحمھم ﷲ تعالٰی۔
اور جو کچھ مال اس کے سوا پیدا کیا یعنی اس زمانہ میں کہ اس کا خورد ونوش باپ سے جدا تھا یا اپنے ذاتی مال سے کوئی تجارت کی یا کسب پدری سے الگ کوئی کسب خاص مستقل اپنا کیا جیسے صورت مستفسرہ میں نوکری کا روپیہ یہ اموال خاص بیٹے کے ٹھہریں گے۔خیریہ وعقود میں ہے : سئل فی ابن کبیرذی زوجۃ وعیال لہ کسب مستقل حصل بسببہ اموالا ھل ھی لوالدہ اجاب ھی للابن حیث لہ کسب مستقل واما قول علمائنا یکون کلہ للاب فمشروط کما یعلم من عبارتھم بشروط منھا اتحاد الصنعۃ وعدم مال سابق لھما وکون الابن فی عیال ابیہ فاذاعدم واحدمنھا لایکون کسب الابن للاب وانظر الی ماعللوابہ المسألۃ ان الابن اذاکان فی عیال الاب یکون معینا لہ فمدارالحکم علی ثبوت کونہ معینا لہ فیہ فاعلم ذٰلک اھ ملخصاً”۔(فتاوی رضویہ حصہ٧ ص ٣٢۴)
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"ہندوستان میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ باپ کے مرجانے کے بعد اُسکے تمام بیٹے ترکہ پر قابض ہوتے ہیں اور یکجائی شرکت میں کام کرتے رہتے ہیں، لینا دینا تجارت زراعت کھانا پینا ایک ساتھ مدتوں رہتا ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ بڑا لڑکاخود مختار ہوتا ہے، وہ خود جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اُس کے دوسرے بھائی اُس کی ماتحتی میں اُس بڑے کے رائے و مشورہ سے کام کرتے ہیں، مگر یہاں نہ لفظ مفاوضہ کی تصریح ہوتی ہے اور نہ اُس کی ضروریات کا بیان ہوتا ہے اور مال بھی عموماًمختلف قسم کے ہوتے ہیں اور علاوہ روپے اشرفی کے متاع اور اثاثہ اور دوسری چیزیں بھی ترکہ میں ہوتی ہیں ۔ جن میں یہ سب شریک ہیں ، لہٰذا یہ شرکت شرکتِ مفاوضہ نہیں بلکہ یہ شرکت ملک ہے اور اس صورت میں جو کچھ تجارت و زراعت اور کاروبار کے ذریعہ سے اضافہ کریں گے اُس میں یہ سب برابر کے شریک ہیں، اگرچہ کسی نے زیادہ کام کیا ہےاور کسی نے کم۔ اور کوئی دانائی و ہوشیاری سے کام کرتا ہے اور کوئی ایسا نہیں۔ اور اگر ان شرکا میں سے بعض نے کوئی چیز خاص اپنے لیے خریدی اور اُس کی قیمت مال مشترک سے اداکی تو یہ چیز اُسی کی ہوگی مگر ِمشترک سے دی ہے، لہٰذا بقیہ شرکا کے حصہ کا تاوان دینا ہوگا”۔(بہار شریعت ح١٠ ص۴٩٦ )
ہاں اگر جذبہ اخوت اور صلہ رحمی کے تحت زید اپنے بھائیوں کو کچھ دے دے یا ان پر اپنی کمائی خرچ کرے تو یہ عمل مستحسن ہے، قرآن مجید میں ارشاد :
وَٱلَّذِينَ تَبَوَّءُو ٱلدَّارَ وَٱلۡإِيمَٰنَ مِن قَبۡلِهِمۡ يُحِبُّونَ مَنۡ هَاجَرَ إِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمۡ حَاجَةٗ مِّمَّآ أُوتُواْ وَيُؤۡثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٞۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفۡسِهِۦ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ (الحشر:9)
حدیث شریف میں ہے :
حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا جس کو مال دے تو خود اپنے اور گھر والوں پر خرچ کرے (مسلم شریف. حدیث نمبر: ١٨٢٢،کتاب الامارۃ)
یوں ہی اگر باپ تنگ دست ہو؛ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور بڑا بھائی خوش حال ہو تو ایسی صورت میں اس پر باپ اور چھوٹے بھائیوں کا نفقہ واجب ہے، چناں چہ البحرالرائق ج ٤ص٢٢٨ میں ہے :
"(قوله: ولقريب محرم فقير عاجز عن الكسب بقدر الإرث لو موسرًا) أي تجب النفقة للقريب إلى آخره؛ لأن الصلة في القرابة القريبة واجبة دون البعيد”.
بہار شریعت میں ہے :
” باپ اگر تنگ دست ہو اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اوریہ بچے محتاج ہوں اور بڑا بیٹا مال دار ہے تو باپ اور اس کی سب اولاد کا نفقہ اس پر واجب ہے (حصہ ہشتم ص٢٧٧)
٢- زندگی میں باپ اگر اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے،اس صورت میں تمام اولاد کو برابر حصہ دینا ہوگا، بہتر یہ ہے کہ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے حسب ضرورت مال الگ کرلے، پھر بیٹے اور بیٹیوں میں برابر تقسیم کردے.
حدیث شریف میں ہے :
” عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال:أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا قال: فأرجعه . وفي رواية …… قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم”۔ (مشکاۃالمصابیح، ١/ ٢٦١، باب العطایا)
فتاوی تتار خانیہ میں ہے:
قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اه”.
(الفتاویٰ التاتارخانیۃ: ١٤ /٤٦٣)
امام اہلسنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”مذہبِ مفتی بہ پر افضل یہی ہے کہ بیٹوں بیٹیوں سب کو برابر دے۔ یہی قول امام ابویوسف کا ہے اور”للِذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ “دینا بھی، جیسا کہ قول امام محمد رحمہ اللہ کاہے ، ممنوع وناجائز نہیں اگر چہ ترکِ اولیٰ ہے۔ردالمحتار میں علامہ خیرالدین رملی سے ہے:” الفتوی علی قول ابی یوسف من ان التنصیف بین الذکر والانثٰی افضل من التثلیث الذی ھو قول محمد“فتویٰ امام ابو یوسف کے قول پر ہے یعنی لڑکے لڑکی دونوں کو برابر ، برابر دیا جائے ، یہ بہتر ہے لڑکے کو لڑکی سے دُگنا دینے والے قول سے اور یہ قول امام محمد علیہ الرحمۃ کا ہے۔
حاشیۂ طحطاوی میں فتاویٰ بزازیہ سے ہے:”الافضل فی ھبۃ البنت والابن التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھو المختار“(یعنی بیٹے اور بیٹی کو دینےمیں افضل وراثت والا طریقہ ہے ، جبکہ امام ابویوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک برابر دینا اولیٰ ہے اور یہی قول مختارہے۔
بالجملہ خلاف افضلیت میں ہے اور مذہبِ مختار پر اولیٰ تسویہ( یعنی برابر ، برابر )، ہاں اگر بعض اولاد فضل دینی میں بعض سے زائد ہو ، تو اس کی ترجیح میں اصلاً باک نہیں ۔(فتاوٰی رضویہ ،١٩/ ٢٣١ ،رضا فاؤنڈیشن لاھور)
*بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں بھائی بہن وراثت نہیں پائیں گے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
التصحیح : محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
١٠ صفر ١٤٤٥/ ٢٩ اگست ٢٠٢٣