ہندہ کے گھر والوں کی قبرستان گاؤں والوں سے الگ ہے تو کیا ہندہ وہاں زیارت کے لئے جاسکتی ہے یا نہیں؟

ہندہ کے گھر والوں کی قبرستان گاؤں والوں سے الگ ہے تو کیا ہندہ وہاں زیارت کے لئے جاسکتی ہے یا نہیں؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ کے گھر والوں کی قبرستان گاؤں والوں سے الگ ہے تو کیا ہندہ وہاں زیارت کے لئے جاسکتی ہے یا نہیں؟
جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ان کے حجرے مین جایا کرتی تھیں پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دفن ہونے کے بعد بھی جایا کرتی تھیں،اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دفن ہونے کے بعد پردے کے ساتھ جایا کرتی تھیں تو کیا پردے کے ساتھ جانا درست ہے یا نہیں؟.

خوشنما خاتون ، منتشاء خاتون، سنبل فردوس جماعت ثالثہ
دارالعلوم علیمیہ نسواں جمداشاہی بستی

الجواب بعون الله الھادی الی الصواب

ہندہ کا قبرستان میں زیارت قبور کے لیے جانا منع ہے،اگر چہ اپنے خاندانی قبرستان میں پردہ کے ساتھ جائے، ہاں! زیارتِ قبر اقدس حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اجازت ہے کہ وہ قریب بہ واجب ہے۔ چناں چہ امام اہل سنت ،اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
”اصح یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں ۔ “( فتاویٰ رضویہ ،٩/ ٥٣٧،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ، لاھور )
فتاوی رضویہ ہی میں ہے :
: ”اقول : قبورِ اقربا پر خصوصاً بحال قرب عہد ممات تجدید حزن لازم نسا ہے، اور مزاراتِ اولیاپر حاضری میں احد الشناعتین کا اندیشہ یا ترکِ ادب یا ادب میں افراط ناجائز ، تو سبیل اطلاق منع ہے، ولہٰذا غنیہ میں کراہت پر جزم فرمایا، البتہ حاضری و خاک بوسی آستان عرش نشان سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اعظم المندوبات ، بلکہ قریبِ واجبات ہے ، اس سے نہ روکیں گے اور تعدیلِ ادب سکھائیں گے ۔ “( فتاویٰ رضویہ ،٩/ ٥٣٨ ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
بہار شریعت میں ہے : ’’عورتوں کے لیے بعض علما نے زیارتِ قبور کو جائز بتایا ، در مختار میں یہی قول اختیار کیا ، مگر عزیزوں کی قبور پر جائیں گی تو جزع و فزع کریں گی ، لہٰذا ممنوع ہے اور صالحین کی قبور پر برکت کے لیے جائیں ، تو بوڑھیوں کے لیے حرج نہیں اور جوانوں کے لیے ممنوع اور اسلم یہ ہے کہ عورتیں مطلقاً منع کی جائیں کہ اپنوں کی قبور کی زیارت میں تو وہی جزع و فزع ہے اور صالحین کی قبور پر یا تعظیم میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادبی کریں گی کہ عورتوں میں یہ دونوں باتیں بکثرت پائی جاتی ہیں ۔ ‘‘( بھارِ شریعت ج اول، ح چہارم ، ص ٨٤٩ ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی ) واللہ تعالی اعلم بالصواب

کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
٨ ربیع الآخر ١٤٤٥ ھ / ٢٤ اکتوبر ٢٠٢٣ء
التصحیح:محمد نظام الدین قادری
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

Leave a Reply