کفریہ جھاڑ پھونک والے کی جنازہ پڑھنا کیسا ہے ؟

کفریہ جھاڑ پھونک والے کی جنازہ پڑھنا کیسا ہے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں زید جو کفریہ جھاڑ پھونک کرتا تھا اور کملہ وغیرہ بھی نہیں آتا تھا جب اس کا انتقال ہوا تو بکر جو ایک عالم دین ہیں غیر دانستہ طور پر اس کی نماز جنازہ پڑھائی اب عمرو اور مخصوص افراد کا کہنا ہے کہ جس نے بھی نماز جنازہ پڑھائی اور پڑھی اس پر توبہ و استغفار لازم ہے کیوں کہ مرحوم کفریہ جھاڑ پھونک کرتا تھا جب کہ مرحوم کے گھر کے جملہ افراد مرد و زن اس بات کے شاہد ہیں کہ انتقال سے دو ماہ قبل انہیں توبہ و استغفار کرایا گیا اور کلمہ بھی پڑھایا گیا جمعہ بھی شروع کر دیئے تھے اور حالت مرض میں اللہ اللہ کا ذکر بھی کیا کرتے تھے ۔
صورت مسئولہ میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ بکر کا نماز جنازہ پڑھانا درست ہے یا نہیں ؟ اگر درست ہے تو پھر عمرو پر شریعت کا کیا حکم ہے جو محض عناد کی بنیاد پر لوگوں کو بھڑکانا چاہتاہے ۔
بینوا و توجروا

المستفتی محمد سراج احمد علیمی

الجواب بعون الملک الوھاب۔

اگر اس کا شرعی ثبوت ہو کہ واقعی زید نے کفریہ جھاڑ پھونک سے توبہ کرکے تجدید ایمان کرلیا تھا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے، بکر نے اس کی نماز جنازہ پڑھا کر کچھ غلط نہیں کیا.بلکہ اس صورت میں اگر کوئی نماز جنازہ نہ پڑھتا تو جتنے لوگوں کو اس کی موت کی اطلاع ہوتی سب فرضِ کفایہ کے ترک کے سبب گنہگار ہوتے۔اس صورت میں عمرو کا عنادا جنازہ پڑھانے اور پڑھنے والوں سے توبہ کا مطالبہ کرنا غلط ہے.
ارشاد الہی ہے:
اِلاَّ الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللہ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ للہ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ط وَسَوْفَ يُؤْتِ ﷲُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًاo
’’مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا‘‘(النساء: ١٤٦)
مزید ارشاد ہے :
وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ.
ترجمہ: کنزالایمان
اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو(الشوریٰ :٢٥)
حدیث شریف میں ہے :
التَّائبُ من الذَّنبِ كمن لا ذنبَ له. (أخرجه ابن ماجة: ٤٢٥٠ ، والطبراني في المعجم الكبير ١٠/ ١٥٠ )
حدیث شریف میں ہے :
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه(البخاری، کتاب الایمان، حدیث رقم :١٠)
فتاوی رضویہ میں ہے :
مسلمان سے بلاوجہ شرعی کینہ وبُغْض رکھنا حرام ہے۔(فتاویٰ رضویہ ۶/۵۲۶)
واللہ اعلم بالصواب.

کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
التصحیح:محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
٩محرم الحرام ١٤٤٥ھ/ ٢٨ جولائی ٢٠٢٣ء

Leave a Reply