کفارومشرکین کو کافر نہ کہنا یا ان کے مذہب کومستحسن سمجھنالبرل وسیکولرطبقہ کاوطیرہ ہے
یہ ذہن میں رہے کہ آجکل لبرل وسیکولرطبقہ کے لوگ اہل اسلام کو کمتراورخسیس اورانگریزکو افضل واعلی گردانتے ہیں بلکہ بعض تویہاں تک کہتے ہیں کہ انگریزہی اصل مومن ہیں اورجو اہل ایمان ہیں وہ مومن نہیں ہیں ۔ جیساکہ کعب بن اشرف یہودی نے کہاتھاکہ مشرکین مکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔
وہ شخص جو مشرکین کو کافر نہ کہے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرنے لگے یا ان کے مذہب کو اچھا کہنے یا سمجھنے لگے ایسا شخص بھی کافر ہو جاتا ہے۔
پہلی بات:
کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شرائط ہیں:وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔
قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے)ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔
ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو مشرک کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرہ اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔
دوسری بات:
مشرکین ایک تو وہ ہیں جو سرے سے مسلمان ہونے کا دعوی نہیں کرتے اور ایک وہ جو مسلمان ہونے کا دعوی کریں(جیساکہ روافض وغیرہ جومولاعلی رضی اللہ عنہ کو خدامانتے ہیں) مگر اُن کا شرک اہل علم کی جانب سے اُن پر واضح کر دیا گیا ہو اور دینِ انبیاء سے اُن کا متصادم ہونا اُن پر آشکارا کر دیا گیا ہو، اُن کو تائب ہو جانے کی ترغیب اور تاکید کر لی گئی ہو اور باقاعدہ علمی شروط کو پورا کرتے ہوئے بالآخر اُن پر مشرک ہونے کا حکم لگا دیا گیا ہو۔
اہل علم کے بیان کی رُو سے جب وہ مشرکین قرارپا جائیں تو ان کو کافر نہ جاننے کا مطلب یہی ہے کہ ہم اسلام کے اندر شرک کا وجود برداشت کریں۔ کفر کا مطلب ہے خدا تعالی کے دین سے یا انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت سے تصادم روا رکھنا۔ اب خدا تعالی کا دین یا انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اﷲتعالی کی بلا شرکت غیرے بندگی۔ سو انبیاء کرام علیہم السلام کے دین کے ساتھ کوئی سب سے بڑا تصادم اور کفر ہو سکتا ہے تو وہ خدا تعالی کے ساتھ شرک ہی ہے۔ لہٰذا جو آدمی مشرکین کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دین سے متصادم نہیں مانتا اس کا اپنا ایمان بھی چلا جاتا ہے۔
{قُلْ مَن یَرْزُقُکُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّہُ وَإِنَّا أَوْ إِیَّاکُمْ لَعَلَی ہُدًی أَوْ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ} (سورۃ سباء:۲۴)
اے حبیب کریمﷺ!ان سے پوچھیں:کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کہو:اﷲ۔ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا صاف نظر آنے والی گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔
پس شرک کے ساتھ عداوت کا اسلام میں جو حکم ہے اور ملتِ شرک کے ساتھ مخاصمت کی شریعت میں جو تاکید ہوئی ہے اس کو دو ٹوک نہ رہنے دینا اور اس کو رواداری کی نذر کر دینا ایک سطح پر جا کر آدمی کو دین اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔
مشرکین کی تکفیر کرنا دراصل کفر بالطاغوت کے معنی میں شامل ہے۔ کفر بالطاغوت میں یہ شامل ہے کہ آدمی طاغوت کی بندگی کرنے والوں کو کافر اور گمراہ اور ہلاکت پر جانے۔
تیسری بات:ہمارے ہاں کچھ لوگ ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور پارسیوں وغیرہ کو ازراہِ شائستگی کافر یا کفار کہنے سے عمداً احتراز برتتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ خوامخواہ کی شدت اور غلظت ہے۔ ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں کیلئے زیادہ سے زیادہ یہ کسی لفظ کے روادار ہیں تو وہ ہے غیر مسلم۔ بسا اوقات یہ ان کو غیر مسلم بھائیوں کے طور پر بھی پکارتے ہیں خصوصاً بعض سیاسی یا سماجی سرگرمیوں کے ضمن میں!حق یہ ہے کہ غیر مسلم کی اصطلاح اسلامی قاموس کے اندر نووارد ہے اور ہماری اِن آخری صدیوں کے اندر جا کر ہی اِس قدر عام ہوئی ہے کیونکہ مغربی نقشے پر کھڑے کئے جانے والے اِن (جدید)معاشروں میں، جہاں دین انسان کی اصل شناخت نہیں، یہ لوگوں کی ایک ضرورت بن گئی تھی۔ اپنے اِس حالیہ استعمال کے لحاظ سے یہ غیر مسلم کا لفظ اسلام میں سراسر ایک محدَث ہے یعنی بعد میں گھڑی جانے والی چیز، قرآن اور حدیث کے ذخیرے قطعی طور پر آپ کو غیر مسلم کی اصطلاح سے خالی نظر آئیں گے۔
قرآن و حدیث کی اصطلاح میں ایک شخص مومن اور مسلم ہے خواہ وہ فسق و فجور یا بدعت (غیر مکفرہ)میں کیوں نہ پڑا ہوا ہو، یا پھر منافق ہوتا ہے (جس کا علم صرف اللہ کے پاس ہو سکتا ہے، ظاہر میں وہ مسلم ہی ہوتا ہے)، اور یا پھر وہ شخص کافر ہے۔ غیر مسلم البتہ آج کے دور میں سامنے آنے والی ایک نئی اصطلاح ہے جس کو مسلمانوں کی لغت میں زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ اِس کی ترویج کیلئے طرح طرح کا سماجی دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ شروع شروع میں اِس کی ضرورت یہاں ہونے والی حقوق کی جدوجہد کے دوران پڑی، بعد ازاں جب یہ یہاں کے جدت پسند دانشوروں کے من کو بھانے لگی، تو اِس کو ایک علمی و شرعی اصطلاح کے رنگ میں بھی پیش کیا جانے لگا۔یہاں تک کہ اسلام کی اصل اصطلاح (کافر)آج ایک معیوب و غیر مہذب لفظ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، بلکہ کچھ لبرل وسیکولر دانشوروں کو کیا سوجھی کہ وہ کافر کے لفظ کو فی زمانہ ممنوع و غیر شرعی ثابت کرنے چل پڑے!
علمائے اہل سنت اِس موضوع پر تصریح فرماتے ہیں کہ:دنیا کے جس ہندو، عیسائی، یہودی، مجوسی، بدھ یا ملحد نے محمد رسول اللہﷺکانام نامی اسم گرامی سن رکھا ہے اور وہ آپﷺ پر ایمان لا کر حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوا، اُس کیلئے ہماری اسلامی شرعی اصطلاح میں ایک ہی لفظ ہے، اور وہ ہے کافر۔
صرف یہی نہیں، جو شخص ایسے کسی شخص کے کافر ہونے میں شک یا تردد یا توقف بھی کرے، وہ بھی کافر ہو جاتا ہے۔ دنیا آج بھی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو بنیاد مان کر تقسیم ہو گی۔ قیامت تک دنیا کی تقسیم کی یہی ایک بنیاد ہو گی:حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے لائے ہوئے دین کو ماننے والے مسلم اور نہ ماننے والے کافر۔ تیسری کوئی قسم نہیں۔
چنانچہ اسلام کے سوا کسی اور دین کے پیروکار اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شریعت کی تابعداری سے انکار کرنے والے شخص کیلئے کافر کا لفظ بولنا جس کلمہ گو پر گراں گزرتا ہے وہ خود بھی کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
لبرل وسیکولرطبقہ کاامام المشرقی لکھتاہے
فواللہ ماجاہدقوم قط فی ھذہ الدنیامثل ماجاہدالغرب فی زمانناھذاولم یعرفوا اللہ مثل ماعرفوہ ولم یقدروہ مثل ماقدروہ فکیف لایوداللہ اجورہم ویوفیہم حق عبادتہ فی الدنیاویتم نعمتہ علیہم ان کانوا شاکرین فکیف لایستخلف فی الارض الذین آمنواباللہ بالحق وعملواالصالحات انہ شکورحلیم فاالملائکۃ اکژہم یسجدون لھذاالقوم ۔
ترجمہ ـعنایت اللہ خان مشرقی لکھتاہے کہ اللہ تعالی کی قسم ! اس دنیامیں کبھی کسی قوم نے ایساجہاد نہ کیاجیساجہاد ہمارے اس زمانے میں یورپ والوں نے کیااورکسی قوم نے کبھی خداتعالی کو ایسانہ پہچاناجیسایورپ والوں نے اسے پہچانااورکسی قوم نے کبھی اللہ تعالی کی ایسی قدرنہ کی جیسی یورپ والوں نے اللہ تعالی کی قدرکی ، تواللہ تعالی ان کااجروثواب کیوں نہ ان کو دے گااوران کی عبادت کاحق ان کو دنیامیں کیوں نہ دے اورکیونکروہ اپنی نعمتیں ان پر تمام نہ کرے اس لئے کہ وہی لوگ شکرگزارہیں اوراللہ تعالی کیونکرزمین میں ان کو اپناخلیفہ نہ بنائے جواللہ تعالی پرحق کے ساتھ ایمان لائے اورانہوںنے نیک کام کئے ، بے شک اللہ تعالی قدرکرنے والاہے ، درگزرفرمانے والاہے ۔ تواکثرفرشتے ان یورپ والوں کو سجدہ کرتے ہیں ۔
(تذکرہ لعنایت اللہ خان مشرقی :۴۶) بحوالہ العطایاالرضویہ فی الفتاوی الحشمتیہ ( ۱: ۵۲۷)
مزیدلکھتاہے
والمغربون کلہم قدعملوا صلوتہم وخطفواالارض من فوقہاومن تحتہاواتخذوابیوت من سہلہاوسخرہاوبنومساکن ومراکب فی بربرھاوبحرھایسبح اللہ ویحمدوہ وہم الذین ھدواالی الصراط المستقیم صراط الذین انعم اللہ علیہم غیرالمغضوب علیہم والضالین۔
ترجمہ :عنایت اللہ مشرقی لکھتاہے کہ یورپ کے لوگ سارے کے سارے اپنی نماز کو معلوم کرچکے ہیں اورزمین کو اس کے اوپراس کے نیچے سے انہوںنے اچک لیاہے اوراس کے نرم اورسخت حصوں میں مکانات بنائے ہیں اورانہوںنے زمین کی خشکی اورتری میں کوٹھیاں اورجہاز بنائے ہیں اس لئے کہ وہ اللہ تعالی کی تسبیح وحمدکریں یعنی یورپ والوں کاسائنس میں یہ ترقیاں کرناہی اللہ تعالی کی تسبیح اورحمدہے اوریہی وہ لوگ ہیں جن کو صراط مستقیم یعنی سیدھے راستے کی ہدایت کی گئی ، ان لوگوں کے راستے جن پر اللہ تعالی کاانعام ہے ان یورپ والوں پرنہ توکوئی غضب ہے اورنہ ہی وہ گمراہ ہیں ۔
(تذکرہ لعنایت اللہ خان مشرقی :۶۴) بحوالہ العطایاالرضویہ فی الفتاوی الحشمتیہ ( ۱: ۵۳۱)
اب آپ غورکرلیں یہ بھی ایک انگریزی فیکٹری کاتیارکردہ پرزہ ہے جو انگریزوں کو مسلمان کہہ رہاہے اوران کو جہادکرنے والا، اللہ تعالی کی معرفت تامہ رکھنے والااوران کو حقیقی مسلمان تک کہہ رہاہے ۔ اوران کی سائنسی ترقیوں کو ہی اصل عبادت قراردے رہاہے ۔ بالکل یہی حال آج کے لبرل وسیکولرطبقہ کاہے وہ بھی اہل اسلام سے زیادہ کافروں کودین اسلام کاپیروکارکہتے ہیں اوراہل اسلام کو دین سے لابلدکہتے ہیں۔
یہی لبرل وسیکولرطبقہ اہل اسلام کو یہ طعنے دیتاہے کہ انگریز اسلام پرعمل کرکے کہاں پہنچ گیااورہم یہاں ذلیل ورسواہورہے ہیں ۔ ان کی اس بات سے لوگوں کے دلوں میں ان کیلئے نیک تمنائیں پیداہوتی ہیں کہ واہ کیابات ہے کہ یہ لوگ بھی اسلام کے خیرخواہ ہیں اورمداح ہیں لیکن ان کی مخالفت کی قلعی تب کھلتی ہے جب ان کو کہاجائے پاکستان میں اسلام کاقانون نافذ کردیاجائے توسب سے پہلے انہیں کے پیٹ میں درداٹھتے ہیں ، یہی لوگ اسلامی نظام کے نفاذمیں رکاوٹ بنتے ہیں ۔ ان کی منافقت وہ گتھی ہے جو سلجھائی نہیں جاسکتی ہے ۔
چوتھی بات:
مشرکین کے کافر اور برسرِ باطل ہونے میں شک کرنا بھی کفر کا موجب ہے۔
بہت سے روشن خیال لبرل وسیکولر یہاں ایسے دیکھے گئے ہیں جو اپنے مذہب پر رہتے ہوئے نماز روزہ بھی کرتے ہیں اور اسلام کے بہت سے اور فرائض بھی ایک روایتی انداز میں، یا پھر سکونِ قلب پانے کی نیت سے، انجام دے لیتے ہیں مگر دوسرے مذاہب کو صریح باطل اور غلط کہنے کے بھی کچھ زیادہ روادار نہیں۔ اِن میں سے کئی سارے یہ کہتے بھی دیکھے گئے ہیں کہ بھائی ہر کسی کو اپنے مذہب پہ چلنا ہے اور ہر کسی کو اپنا دھرم پیارا ہے۔ ہم اپنے مذہب پہ چلتے ہیں اور دوسرے لوگ اپنے اپنے مذہب اور دھرم پہ چلتے ہیں۔ اب یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ کون صحیح ہے!
یہ اندازِ فکر صریحاً کفر ہے۔ گویا خدا تعالی نے کوئی رسول(علیہ السلام) اِس شخص کو یہ بتانے کیلئے بھیجا ہی نہیں کہ کیا حق ہے اور کیا باطل۔ ایسے آدمی کاحضورتاجدارختم نبوتﷺ کی لائی ہوئی ہدایت سے کفر کرنا اظہر من الشمس ہے۔ اسلام اور توحید کے سوا کسی راستے پر چلنے کو بربادی نہ جاننا خود بربادی ہے چاہے آدمی بظاہر کتنا ہی باشرع کیوں نہ ہو۔ ایسے ظالم نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی بعثت کامقصدہی کیا جانا۔
غرض مشرکوں اور ادیان باطلہ کے پیروکاروں کے کافر اور برسر باطل ہونے میں شک کرنے کا اندازِ فکر طرح طرح سے آج اسلام کے نام لیوا کچھ طبقوں کے اندر بولتا ہے۔ خدا تعالی کی بابت یوں سوچنا جی کیا پتہ وہ کس سے خوش ہو جائے کوئی نماز پڑھ کے اس کو مناتا ہے کوئی ناچ کر اور کوئی برہنہ ہو کر گویا حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس کو یہ بات بتائی ہی نہیں کہ اس کا پیدا کرنے والا، جو کہ تمام تر حکمت اور دانائی کا مالک ہے اور اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے پورے اہتمام کے ساتھ رسول بھیجتا ہے،انسانوں کی کس بات سے خوش ہوتا ہے اور کس بات سے ناراض۔
اس طرز فکر کو یہ لوگ اگر رواداری سمجھتے ہیں تو ایسی رواداری حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کے لائے ہوئے دین اور قرآن کی بتائی ہوئی قطعی اخبار کے ساتھ واضح کفر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس انداز کی اور اس سے ملتی جلتی رواداری آج ایک کثیر خلقت کا مسلک بن چکا ہے۔(جسے عرف عام میں لبرل وسیکولرکہاجاتاہے)
پانچویں بات:
اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ مشرکین کے مذہب کو آدمی اچھا کہہ دے۔ مشرکین کے مذہب کی کسی وقت تعریف کر دینا یا ان کے مذہب کیلئے اچھے الفاظ بول دینا آدمی کو ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ بے شک آدمی لحاظ ملاحظے کیلئے اوپر اوپر سے ایسا کہہ رہا ہو یا دل سے ایسا سمجھے، دونوں صورتوں میں یہ کفر ہے۔ گو ثانی الذکر سنگین تر ہے۔
اسلام کے ماسوا اَدیان ومذاہب اور عقائد ونظریات کی بابت یہ کہہ دینا کہ اپنی اپنی جگہ سب صحیح ہیں، حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کے ساتھ صریح کفر ہے۔ ایسا کہہ کر یا سمجھ کر آدمی دائرہ اسلام میں نہیں رہتا۔
چھٹی بات:
معاملہ یہ ہے کہ اسلام سے منسوب کسی فرد یا گروہ کی تکفیر کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ علماء اہلسنت کا اس کی تکفیر پر اصولی اتفاق ہو۔ دوسری یہ کہ علماء اہلسنت کے ہاں اس فرد یا گروہ کی تکفیر کی بابت ایک سے زیادہ آراء پائی جائیں.
اول الذکر صورت میں اس قاعدہ کا قطعی اطلاق ہوگا۔ جس فرد یا گروہ کو مشرک اور کافر کہنے پر علمائے حق اصولاً مجتمع ہو گئے ہوں، اس کو کافر نہ کہنے والا آدمی کفر ہی کا مستوجب ہوگا۔ مثلاً قادیانیوں، بہائیوں، بابیوں، نصیریوں اور دروزیوں و اسماعیلیوں وغیرہ کی تکفیرنہ کرنے والا بھی کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے، کیونکہ ان کی تکفیر پر علمائے اسلام میں اختلاف نہیں۔