کسی مجلس میں قرآن پڑھا جائے تو کیا سب پر سننا لازم ہے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید دریافت کرتا ہے کہ طالب علم قرآن عظیم کا سبق یاد کرتا ہو اس حالت میں کہ اس کا ہر حرف غلط ادا ہوتا ہو اور استاد ایک جلسہ کئے ہوئے ہو اس حالت میں کہ کچھ حقہ نوشی کرتے ہوں اور کچھ گفتگو دنیاوی ۔ اور استاد بھی ہر شخص سے باتیں کر رہے ہیں اور کھانا کھا رہے ہیں ۔ مگر طالب علم کو سبق صحیح کرانے کی استاد کو کچھ فکر نہیں ہے ۔ یہ معاملہ دیکھ کر بکر نے کہہ دیا کہ ایسی حالت میں یہ سب کام حرام ہے ۔ تو استاد نے جواب دیا کھانا کھانا بھی؟ بکرنے کہا ہاں جبکہ اس کی کوئی خبر ہی نہیں لی جا رہی ہے ۔ لہذا حکم شرع استاد و بکر و عوام کے واسطے کیا ہے؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قرآن عظیم کا سننا ہر شخص پر جو وہاں ہو جہاں قراءت ہو رہی ہو فرض ہے. اس وقت بولنا ہی نہیں ہر کام مخل استماع ہوگا نا جائز ہے ۔
قال تعالی : واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم ہو ۔
خصوصاّ استاد کہ اس پر اصلاح کے لیے بھی سننا ضروری ہے اور طالب علم جو غلطی کرے اس کا بتانا لازم ہے خصوصاً قرآن عظیم میں ۔ بے شک وہ استاد بے پرواہی اور ترک فرض استمتاع ان دونوں باتوں کا ملزم ہوگا جبکہ بعد قراءت وہ کلام یا کسی کام میں مشغول ہوا ہو ۔ یوں ہی وہ لوگ جو وہاں بیٹھے ہوں ۔ اور اگر مشغول تھے پھر ان کے نزدیک طالب علم نے اپنا پڑھنا شروع کیا ۔ تو اس صورت میں یہ لوگ معذور رکھے جائیں گے ان پر الزام نہ ہوگا ۔
غنیہ میں ہے
” صبی یقرافی البیت واھلہ مشتغلون بالعمل یعذرون فی ترک الاستماع ان افتحوا العمل قبل القراءۃ والا فلا ۔ واللہ تعالی اعلم
ایک بچہ گھر میں قرآن عظیم کی تلاوت کر رہا ہے اور گھر والے کام میں مشغول ہیں تو وہ ترک استماع میں معذور سمجھے جائیں گے اگر انہوں نے تلاوت شروع ہونے سے پہلے کام کا آغاز کیا ہو ورنہ نہیں. اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ۔
فتاویٰ مفتی اعظم ہند، کتاب العقائد و الکلام صفحہ ١٧/١٨