قتلِ ناحق کا عذاب اور مسلمان کو ناحق قتل کرنے کا وبال 

قتلِ ناحق کا عذاب اور مسلمان کو ناحق قتل کرنے کا وبال

ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیاگیا ہے، اور ایک جان بچانے کو ساری انسانیت کو بچا لینے کے مترادف قرار دیاگیاہے!

گنبد ومینار کے شہر مالیگاؤں میں قتل کی واردات مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ چھوٹے چھوٹے معاملات پر قتل کردینا بڑا آسان کام سمجھا جارہا ہے ۔
کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔قراٰن وحدیث میں اس گناہ پر بہت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا (۹۳) (پ۵، النساء :۹۳)

ترجمۂ کنزالایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کابدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ (پ ۶، المائدۃ:۳۲)

ترجمۂ کنزالایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلالیا (بچایا) اس نے سب لوگوں کو جِلالیا۔

 قتل ناحق کی مذمت میں 3 روایات

(1) حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ بروزِ قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا ۔ عاصم بن اَبِی النَّجُوْدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا :’’اے ابو زُرعہ ہزار مرتبہ ؟‘‘ ابو زُرعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’جس آلہ سے اس نے قتل کیا اس کی ہزار ضربیں۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الفتن، باب من کرہ الخروج فی الفتنۃ وتعوذ عنھا، ۸/۶۴۴، حدیث:۳۳۰)

(2) حضرتِ سَیِّدُنا عَبْدُ اللہ بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم اسے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی،کتاب الدیات، باب ماجاء فی تشدید قتل مؤمن،۳/۹۸، حدیث:۱۴۰۰)

(3) حضرتِ سَیِّدُناابن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبیِّ حاشِر،رسولِ صابِر و شاکِر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے ۔
(شعب الإیمان، باب فی تحریم النفوس والجنایات علیہا، ۴/۳۴۴، حدیث:۵۳۴۱)

 قاتل و مقتول دونوں جہنمی

عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ نُفَیْعِ بْنِ الْحَارِثِ الثَّقَفِیْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْہم ا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِی النَّارِ۔ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ ہَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُوْلِ؟ قَالَ إِنَّہُ کَانَ حَرِیْصًا عَلَی قَتْلِ صَاحِبِہٖ۔

(بخاری ، کتاب العلم ، باب وان طائفتان من المؤمنین … الخ ، ا/۲۳، حدیث:۳۱)

ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا ابو بکرہ نُفَیْع بن حَارِث ثَقَفِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں توقاتل ومقتول دونوں آگ میں ہیں۔‘‘ (راوی فرماتے ہیں ) میں نے عرض کی :’’یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قاتل تو واقعی اس کاحق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ‘‘ ارشاد فر مایا:’’ وہ بھی تواپنے مُقابِل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘

قاتل ومقتول کب جہنمی ہونگے ؟

حضرتِ سَیِّدُنامُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی مرقاۃ شرحِ مِشْکاۃ میں اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : حرام فعل کا ارادہ کرنا ان افعال میں سے ہے جن پرمواخذہ ہے۔ اوریہ ( قاتل ومقتول دونوں کے جہنمی ہونے کا حکم ) اس وقت ہے جب دونوں ہی ایک دوسرے کے قتل کے ارادے سے حملہ آور ہوں۔ اگر ان میں سے ایک نے دِفاع کا ارادہ کیا اور اُس کی طرف سے پہل بھی نہ ہوئی مگر صرف دوسرے کے مارنے کی وجہ سے اس نے اس کو قتل کردیاتو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا،کیونکہ اس کو(اپنی جان بچانے کی) شرعااجازت دی گئی ہے۔

(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب قتل اہل الردۃ ، ۷/۱۰۴، تحت الحدیث:۳۵۳۸)

عَلَّامَہ بَدْرُالدِّیْن عَیْنِی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ القاری میں فرماتے ہیں : علمائے کرام رَحِمَھُمُ اللہُ نے فرمایا کہ قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دونوں آگ کے مستحق ہیں ،لیکن ان دونوں کا معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذِمَّۂ کرم پر ہے اگر وہ چاہے تو دونوں کو دَوزخ کا عذاب دے اور اگر چاہے تودونوں کو معاف فرما کر بالکل ہی عذاب نہ دے۔

(ملخصاًعمدۃ القاری، کتاب الفتن، باب اذا التقی المسلمان بسیفھما، ۱۶/ ۴۹۔۳۴۸، تحت الحدیث:۷۰۸۳)

 دنیا کی وجہ سے قتل

عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فَتْحُ الْبَارِی میں فرماتے ہیں : علامہ بَزَّارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نے اس حدیث پاک کی مراد بیان کرتے ہوئے فرمایا :یعنی جب تم دنیا کی وجہ سے ایک دوسرے کو قتل کرو تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں اور اس کی تائید مسلم شریف کی اس حدیث سے ہوتی کہ ’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لوگوں پر ایسا زمانہ نہ آجائے کہ قاتل کو معلوم نہ ہو کہ اس نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو یہ معلوم نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیا گیا ہے۔‘‘ عرض کی گئی کہ ایسا کیسے ہوگا؟ فرمایا کہ بکثرت خون ریزی ہوگی اور قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہونگے ۔

عَلَّامَہ قُرْطُبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا: اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ جو لڑائی جہالت کی بنا پر دنیاوی غرض کے لئے ہو یا نفسانی خواہش کی پیروی میں ہوتوقاتل ومقتول دونوں جہنمی ہیں۔

(فتح الباری ، کتاب الفتن، باب اذا التقی المسلمان بسیفہم ا، ۱۴/۳۰، تحت الحدیث:۷۰۸۳)

مُفَسِّر شہِیرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں کہ:جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنے کے ارادے سے کسی بھی ہتھیارمثلاََتلوار، خنجر بندوق وغیرہ سے حملہ آور ہوں اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کردے توقاتل و مقتول دونوں کی سزا جہنم ہے ،قاتل تو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے اور مقتول قتل کے پختہ ارادے کی وجہ سے کیونکہ اگرپہلے اس کا وار چل جاتا تویہ اسے قتل کر دیتا ،لہٰذا اسے بھی قتل ہی کا گناہ ملے گا،لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب دونوں باطل پر ہوں اگر کوئی ایک حق پر ہو تو صرف باطل والاہی گناہ گار ہوگا ، جیسے کوئی مسلمان اپنا مال ،عزت یا جان بچانے کے لئے کسی چور ، ڈاکو سے مزاحمت ومقابلہ کرتے ہوئے قتل ہوجائے تو چور ،ڈاکو ہی جہنمی ہونگے جبکہ یہ قتل ہونے والاشہید کا مرتبہ پائے گا ۔

(ملخص ازمراٰۃ المناجیح ، ۵/۲۶۵)

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جہاں بھی بڑے گناہوں کا ذکر فرمایا ھے وہاں شرک کے فوراً بعد قتلِ نفس کا ذکر ضرور کیا ہے۔ جہاں ہمیں شرک سے منع کیا گیا وہیں ناحق انسانی جان لینے کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے!!

ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیاگیا ہے، اور ایک جان بچانے کو ساری انسانیت کو بچا لینے کے مترادف قرار دیاگیاہے!!

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

کتبــــــــہ : مفتی محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں

Leave a Reply