ناحق زمینوں پر قبضہ کرنا کیسا ہے؟ از مفتی ابو اسید عبید رضا مدنی

کچھ لوگ ناحق زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں تو اُن کا ناحق زمینوں پر قبضہ کرنا کیسا ہے؟

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

ناحق زمینوں پر قبضہ کرنا واضح ظلم، ناجائز و گناہ اور باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھانا ہے۔

چنانچہ کسی کا مال ناحق کھانے کے بارے میں قرآنِ مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

"وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠”

ترجمہ : اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر جان بوجھ کر کھالو۔

(پارہ 2، سورۃ البقرۃ : 188)

امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت تحریر فرماتے ہیں :

"اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا، خواہ لوٹ کر ہو یا چھین کر، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔

(احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم و ما لا یحلہ، جلد 1، صفحہ 304، دارالکتب العلمیہ بیروت)

حدیثِ پاک میں فرمایا :

”من اخذ شبرا من الارض ظلمافانہ یطوقہ یوم القیامة من سبع ارضین“

یعنی جس نے بالشت بھر زمین ظلماً لی (غصب کی) بروزِقیامت اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔

(مشکوة المصابیح، صفحہ 254، مطبوعہ کراچی)

مزید ایک مقام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

”من کانت لہ مظلمة لاخیہ من عرضہ او شیٔ فلیتحللہ منہ الیوم قبل ان لا یکون دینار و لا درھما لہ“

یعنی جس نے اپنے بھائی پر اس کی عزت یا کسی شئی (یعنی مال یا جان) میں سے ظلم کیا ہو تو آج ہی اس سے خلاصی حاصل کر لے، اس سے پہلے کہ اس کے پاس نہ کوئی دینار ہو اور نہ کوئی درھم ہو۔

(مشکوة المصابیح، صفحہ 435، مطبوعہ کراچی)

حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا :

’’وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے۔”

(تاریخ بغداد، باب محمد، محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ، جلد 1، صفحہ 360، رقم الحدیث : 262)

عربی لغت میں ظلم کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے :

”وضع الشیء فی غیر موضعہ“

یعنی کسی شے کو ایسی جگہ رکھنا جو اس کا محل نہ ہو۔

”واصل الظلم الجور و مجاوزة الحد“

اور ظلم کی اصل زیادتی اور حد سے بڑھنا ہے۔

(لسان العرب، جلد 12، صفحہ 373، مطبوعہ دارالفکر بیروت)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply