کسی کمپنی کے ہال روم میں نمازِ عید ادا کرنے کا حکم

کسی کمپنی کے ہال روم میں نمازِ عید ادا کرنے کا حکم

السلام علیکم ورحمةاللہ تعالی وبرکاتہ

مفتیان اسلام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ عیدالفطر کی نماز کسی کمپنی کے ہال روم /کسی کمرہ میں ادا کرنا کیسا ہے.

جواب عنایت فرماکرعنداللہ ماجور ہوں .

بدرعالم خان علیمی نظامی بلرامپور


الجواب:

        یہاں اُس ضروری امر کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے،جس کو جمعہ وعیدین قائم کرنے کے بارے میں صدر الشریعہ بدر الطریقہ مصنف بہارِ شریعت علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں:

"ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں ، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا، یہ ناجائز ہے، اس لیے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے، اس کا بیان آگے آتا ہے اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ جاری کرنے میں سُلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں ، عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں”

(بہارِ شریعت ح ۴ ص ٧٦٩)

          اس ضروری امر کا بیان حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اگرچہ جمعہ کے بیان میں اور "جمعہ” کے صریح ذکر کے ساتھ کیا ہے، لیکن اہلِ علم پر مخفی نہیں کہ "خُطبہ” کے علاوہ تمام وہ شرطیں جو جمعہ کی صحت کے لیے ضروری ہیں، وہ سب عیدین کی صحت کے لیے بھی ضروری ہیں، چناں چہ عیدین کے بیان میں تحریر فرماتے ہیں:

"عیدین کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انھیں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا”

(بہارِ شریعت ح۴ ص٧٨۴)

ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ عیدین کی نماز صحیح ہونے کے لیے کچھ شرطیں ہیں، جہاں وہ شرطیں پائی جائیں گی وہاں عیدین کی نماز صحیح ہے ورنہ نہیں۔

وہ شرطیں درج ذیل ہیں:

(١) جس جگہ عیدین کی نماز قائم کی جائے وہ شہر یا فنائے شہر ہو۔

(٢) بادشاہِ اسلام یا اس کے ماذون قاضی نے قائم کیا ہو۔ موجودہ دور میں یہاں ہندوستان میں یہ حق شہر کے اس سب سے بڑے عالمِ دین کو ہے کہ فتوی اور دینی امور میں عام اہل سنت اس کی طرف رجوع کرتے ہوں۔

(٣) وقت_ عیدین کے نماز کا وقت طلوعِ آفتاب کے بیس منٹ بعد سے نصف النہارِ شرعی تک ہے۔

(۴) جماعت_ یعنی: امام کے علاوہ کم از کم تین مرد ہوں۔

(۵) اذنِ عام_ یعنی: یعنی جس جگہ عید کی نماز ادا کی جارہی ہو وہ کھلی جگہ ہو اور اگر عیدگاہ یا مسجد یا کوئی احاطہ ہو تو دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے، کسی مسلمان کے لیے روک ٹوک نہ ہو۔(ایسا ہی فقہ و فتاوی کی کتابوں میں ہے)

اس طویل تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر وہاں عید کی نماز تمام شرطوں کے ساتھ پہلے سے ہورہی تھی اور اس دفعہ اس خاص جگہ پر عید کی نماز نہ ادا کی گئی جہاں ہوتی تھی ، بلکہ اس کی بجائے کسی کمپنی کے ہال روم یا کسی بڑے کمرے میں ادا کی گئی، اور امام وہی ہے جو عید کی نماز پڑھاتا تھا اور عام مسلمانوں کو اس تبدیلی مکان کی اطلاع دے کر اذنِ عام کی شرط کی رعایت کے ساتھ نمازِ عید ادا کی گئی تو نمازِ عید صحیح ہے۔ اور اگر کسی نے بطورِ خود امام بن کر نمازِ عید پڑھادی یا اذنِ عام کی شرط کے لحاظ کے بغیر عید کی نماز پڑھی گئی تو یہ صحیح نہیں ہے۔

اور اگر پہلے جہاں نمازِ عید ہوتی تھی اس کو باقی رکھتے ہوئے ایک نئی نمازِ عید قائم کی گئی تو اگر یہ عید کی نماز شہر کے سب سے بڑے عالم دین کے ذریعہ قائم کی گئی ہو اور عید کی نماز کی دیگر شرطیں بھی پائی گئی ہوں تو نمازِ عید صحیح ہے ورنہ نہیں ۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ:محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی۔بستی۔ یوپی۔

١۵/شوال المکرم ١۴۴٢ھ//٢٨/مئی ٢٠٢١ء


حروف کا صحیح تلفظ نہ کرنے والے کی امامت کا حکم

عورت کو دھات کے بنے زیورات اور آرٹیفیشیل(مصنوعی) زیورات پہننا کیسا ہے؟

Leave a Reply