کن وقتوں میں قضا نماز پڑھنا منع ہے ؟ از مفتی محمد نظام الدین قادری مصباحی

کن وقتوں میں قضا نماز پڑھنا منع ہے ؟

السلام علیکم رحمہ اللہ وبرکاتہ

سوال : کیا بعد نماز عصر یافجر کوئ قضاۓ عمری پڑھ سکتاہے یانہیں مع دلیل ارسال فرماءیں ۔ عین نوازش ہوگی ۔ عنداللہ ثواب کے مستحق ہوں گے۔
موبائل نمبر
(9451469873)

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــ

بعد نماز عصر سورج ڈوبنے سے بیس منٹ پہلے تک قضائے عمری پڑھ سکتے ہیں ۔ یوں ہی نمازِ فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے تک بھی قضائے عمری پڑھ سکتے ہیں ۔ لیکن ان دونوں وقت میں قضا نمازیں لوگوں کے سامنے نہ پڑھی جائیں ۔ تنہائی میں پڑھی جائیں، اس لیے کہ ان اوقات میں نفل نماز مکروہ ہے تو لوگوں کو اس پر آگاہی ہوگی کہ اس شخص نے نمازیں چھوڑدی ہیں اس طرح گناہ کا اظہار ہوگا اور اظہارِ گناہ بھی گناہ ہے ۔

واضح ہو کہ قضا نماز صرف تین اوقات میں منع ہے:

(١) طلوعِ آفتاب یعنی سورج کا کنارہ چمکنے سے اس وقت تک کہ نگاہ سورج پر نہ جمنے لگے ۔ جس کی مقدار یہاں بلادِ ہند میں ہمارے اکابر علماء کے تجرباتِ صادقہ کی روشنی میں بیس منٹ ہے۔

(٢) ضحوہ کبری: یعنی نصف النہار شرعی سے نصف النھار حقیقی تک۔

(٣) غروبِ آفتاب سے پہلے اس وقت سے جب سورج پر نظر جمنے لگے سورج ڈوبنے تک۔یہ وقت بھی بیس منٹ ہے ۔

ان تین اوقات کے علاوہ کسی وقت میں بھی قضا نماز منع نہیں ہے ۔ لیکن نفل کے دیگر مکروہ اوقات مثلاً:نمازِ عصر کے بعد یا فجر کے بعد ایسی جگہ قضا نماز نہ پڑھے جہاں لوگ اس کو دیکھ کر اس کی تقصیر پر آگاہ ہوں ۔ کیوں کہ گناہ کا اظہار واعلان بِھی گناہ ہے ۔

شیخ الاسلام امام برھان الدین فرغانی تحریر فرماتے ہیں:
"لا تجوز الصلاة عند طلوع الشمس ولا عند قیامھا فی الظہیرة ولا عند غروبہا لحدیث عقبة بن عامر قال: ثلاثة اوقات نھانا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان نصلی وان نقبر موتانا: عند طلوع الشمو حت ترتفع، وعند زوالھا حتی تزول وحین تضیف للغروب حتی تغرب۔”
(ہدایہ ج١ ص٦٨)

امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:۔
"تجربہ سے یہ وقت تقریباً بیس منٹ ثابت ہُوا ہے تو جب سے آفتاب کی کرن چمکے اُس وقت سے بیس منٹ گزرنے تک نماز ناجائز اور وقت کراہت ہوا اور ادھر جب غروب کو بیس منٹ رہیں وقتِ کراہت آجائے گا، اور آج کی عصر کے سوا ہر نماز منع ہوجائے گی ۔”
(فتاوی رضویہ ج۵ص٢٣ دعوت اسلامی ایپ)

حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"طلوع و غروب و نصف النہار ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں، نہ فرض، نہ واجب، نہ نفل، نہ ادا، نہ قضا۔یوں ہی سجدہ تلاوت و سجدہ سہو بھی ناجائز ہے، البتہ اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے، مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے ۔ حدیث میں اس کو منافق کی نماز فرمایا۔

طلوع سے مراد آفتاب کا کنارہ ظاہر ہونے سے اس وقت تک ہے کہ اس پر نگاہ خیرہ ہونے لگے جس کی مقدار کنارہ چمکنے سے ۲۰ منٹ تک ہے اور اس وقت سے کہ آفتاب پر نگاہ ٹھہرنے لگے ڈوبنے تک غروب ہے، یہ وقت بھی ۲۰ منٹ ہے، نصف النہار سے مراد نصف النہار شرعی سے نصف النہار حقیقی یعنی آفتاب ڈھلکنے تک ہے جس کو ضحوۂ کبریٰ کہتے ہیں یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک آج جو وقت ہے، اس کے برابر برابر دو حصے کریں ، پہلے حصہ کے ختم پر ابتدائے نصف النہار شرعی ہے اور اس وقت سے آفتاب ڈھلنے تک وقت استوا و ممانعت ہر نماز ہے۔”
(بہار شریعت ح٣ ص۴۵٨)

نیز تحریر فرماتے ہیں:
"قضا کے لیے کوئی وقت معین نہیں ، عمر میں جب پڑھے گا بریٔ الذّمہ ہو جائے گا، مگر طلوع و غروب اور زوال کے وقت کہ ان وقتوں میں نماز جائز نہیں۔”
(بہار شریعت ح۴ص٧٠٧)

نیز تحریر فرماتے ہیں:
"وتر کی نماز قضا ہوگئی تو قضا پڑھنی واجب ہے اگرچہ کتنا ہی زمانہ ہوگیا ہو، قصداً قضا کی ہو یا بھولے سے قضاہوگئی اور جب قضا پڑھے، تو اس میں قنوت بھی پڑھے۔ البتہ قضا میں تکبیر قنوت کے لیے ہاتھ نہ اٹھائے جب کہ لوگوں کے سامنے پڑھتا ہو کہ لوگ اس کی تقصیر پر مطلع ہوں گے”

(بہار شریعت ح۴ص٦٦٣)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی۔
١٢/جمادی الاولی١۴۴٣ھ//١٦/دسمبر٢٠٢١ء

Leave a Reply