خواجہ غریب نواز کے دربار میں چاندی کی نذر ماننا / مسائل ورلڈ

خواجہ غریب نواز کے دربار میں چاندی کی نذر ماننا

زاہد نے منت مانی کہ اگر مجھے اولاد ہوگئی تو میں حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے دربار میں بچہ کے وزن کے برابر چاندی دوں گا۔ اب دریافت طلب یہ ہے کہ وہ چاندی ایک مشت اداکی جائے یا قسط میں ۔ زید کے گھر بچی پیدا ہوئی تو اس کا وزن 3/ کلو ہے ۔ فی الحال تین کلو چاندی کی قیمت نوے ہزار ہورہی ہے زید پریشان ہے کہ اب وہ کس طرح ادا لیا جائے گا؟

الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

زید غریب ہے تو اس پر منت پوری کرنا لازم نہیں کہ اس نے جو منت مانی ہے اس کی جنس سے کوئی فرض عین نہیں ، جو عبادت مقصودہ ہو ۔

در مختار میں ہے : ولم یلزم الناذر ما لیس من جنسه فرض، كعيادة مريض ودخول مسجد ولو مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم أو الاقصي ، لأنه ليس من جنسها فرض مقصود وهذا هو الضابط كما في الدرر.

ترجمہ: جس منت کی جنس سے کوئی فرض نہ ہو ۔ اسے پوری کرنا نذر ماننے والے پر لازم نہیں ۔ جیسے مریض کی عیادت کرنا، مسجد میں داخل ہونا ، اگر چہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصی ہی کیوں نہ ہو۔ کیون کہ ان افعال کی جنس سے کوئی فرض مقصود نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں ضابطہ یہی ہے ۔ جیسا کہ درر میں ہے۔ (رد المختار علی الدرر المختار ، ص: 73، مطلب فی احکام النذر)

تاہم جب اس نے اپنے رب سے یہ وعدہ کیاکہ ” اگر مجھے اولاد دی گئی تو میں حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے دربار میں بچہ کے وزن کے برابر چاندی دوں گا ” تو مستحسن یہ ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے ۔ اگر ایک ساتھ اسے پوری رقم دینے کی استطاعت نہیں تو مختلف قسطوں میں ادا کرسکتا ہے اور اس وقت بھی آسانی کے لحاظ سے مختصر رکھ سکتا ہے ۔ البتہ حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے دربار میں زید یہ رقم کس کو دے گا، اس کے بارے میں دو قول ہیں ، اور اس زمانے میں فتوی اس قول پر مناسب ہے کہ وہاں کے فقراء کو دے دے ۔

در مختار میں ہے: وفی المجتبی : اولی بثلث ماله للكعبة جاز وتصرف لفقراء الكعبة لا غير وكذا للمسجد ولقدس. ١ھ۔ (کتاب الوصایا)

ترجمہ: کسی شخص نے اپنے مال کے تہائی حصہ کی وصیت کعبہ شریف کے لیے کی تو یہ وصیت جائز ہے ۔ اور وصیت کا مال صرف کعبہ اطہر کے فقراء پر صرف ہوگا، دوسرے پر نہیں ۔ یہی حکم اس وقت بھی ہوگا جب کہ اس نے مسجد اور قدس کے لیے وصیت کی ہو ۔

رد المختار میں ہے: وينبغي الإفتاء بأن الوصية للمسجد ، وصية لفقرائه في مثال الأزهر، كذا حرر هذا المحل السايحاني رحمه الله عليه . ١ھ ترجمہ : اسی پر فتوی دیا جانا کہ مسجد کے لیے وصیت کہ اس کے فقراء کے لیے وصیت ہے ( ردالمختار،ص: 48، ض : 5، کتاب الوصایا)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

کتبــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور 

Leave a Reply