خواجہ غریب نواز کی تعلیمات و ارشادات
سلطان الہند عطائے رسول سیدنا خواجہ معین الدین حسن سنی حنفی چشتی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ متوفیٰ 633/ 1235
بلاشبہ آپ ہند میں سرخیل اولیااور سرتاج اصفیا ہیں کفر وشرک کے دور ظلمت میں توحید ورسالت امن وامان عدل وانصاف اخوت ومحبت اور ہدایت کا نور بن کر 556ھ اجمیر معلیٰ میں ایسے طلوع ہوئے،جیسے آسمانی دنیا سے آفتاب طلوع ہوکر کرہ ارضی کو روشن کرتا ہے اور ہر چھوٹی بڑی مخلوق انسان حیوان سب اس روشنی سےاستفادہ کرتے ہیں،لیکن چشم بینا سے محروم انسانوں پر آفتاب کی شعاوں کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا ٹھیک ایسے ہی خواجہ صاحب کی آمد کیا ہوئی مانو دلوں کی کائنات منور ہوگئی توحید ورسالت کی بزمیں سج گئیں پورا برِصغیر مستفیض ہوا البتہ وہ جو قلب بینا سے محروم تھے ان پر آفتاب رسالت ماہ نبوت صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے بھیجے ہوئے نوری مدنی کرن کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ اپنی شقاوت اور کور باطن کے سبب کل بھی زیغ و ضلالت میں بھٹک رہے تھے اور آج بھی ماتم کناں ہیں اور اپنی پیہم سازشوں میں مضطرب ہیں لیکن ان کی شرارتوں شقاوتوں کے ہزاروں پھونکوں کے بعد بھی خواجہ صاحب کے علم و اقبال ولایت وہدایت سلطنت و بادشاہت اور جود وسخا فضل وعطا کا آفتاب چمک رہاہے شاہ وگدا سب فیضیاب ہورہے ہیں،
و اللّٰہ مُتُمّ نورہ ولو کرہ الکافرون
ع پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا
طوفانوں آندھیوں کی زد میں بھی یہ شمع فروزاں رہیگا ان شاء اللّٰہ
برصغیر ہند وپاک میں اسلام کی کاشت اولیا صوفیا کے دم قدم سے ہوئی ہے ارباب اقتدار مسلم حکمرانوں بادشاہوں زمین داروں جاگیرداروں راجاوں کا عمل دخل اسلام کے فروغ میں نا کے برابر رہاہے تاریخی زمینی حقیقت اور صداقت یہی ہے کہ عارفین واصلین کی قولی وعملی موثر دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں توحید ورسالت کے نغمے گونج رہے ہیں اور تکبیر ورسالت کے نعروں سے فضا معمور ہے اور انسانوں کی ایک بڑی جماعت اس دھرتی کی آغوش میں اپنے معبود کو سجدہ کرتی نظر آرہی ہے،جگ ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں جن مشائخ کی کاوشوں سے فکر ونطر کا قبلہ تبدیل ہوا لاکھوں کروڑوں کے قلب ونظر مسخر ہوئے ان میں سلسلہ قادریہ نقشبندیہ سہروردیہ سمیت سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں کا وافر حصہ رہا ہے اور سلسلہ چشتیہ بہشتیہ کے مشائخ میں خواجہ غریب نواز ممتاز نظر آتے ہیں گویا آپ کی ذات ہر جہت سے سلطان کی حیثیت رکھتی ہے ہند میں کوئی آپ کا ہمسر نہیں روسا امرا غربا فقرا شاہ وگدا کے ساتھ علما عرفا صلحا کی بزم کے بھی آپ ہی سلطان ہیں یہی وجہ ہے کہ سلطان الہند عطائے رسول غریب نواز جیسے القابات زبان زد عام وخاص ہیں،
قارئین آج راقم الحروف اسی معنوی سلطان کی تعلیمات وارشادات کے باغ سے کچھ پھول چن کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے جارہا ہے لیکن اس سے پہلے خوب اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ خواجہ غریب نواز تصوف ولایت وکرامت کے سلطان اور حسنی حسینی سید ہوتے ہوئے بھی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد سنی حنفی تھے اور پوری زندگی مسلک اہلسنت حنفیت کی ترجمانی کرتے رہے آپ کی بارگاہ میں جہاں لاکھوں غیر مسلم کفر وشرک سے تائب ہوئے وہیں بہت سے فاسق وفاجررافضی خارجی منکر تصوف نے بھی فسق وفجور اور رفض سے توبہ کیا جیسا کہ ہرات سبزوار کاحاکم یادگار محمد صحابہ کرام کا گستاخ رافضی اور تصوف وغیرہ کا منکر تھا ان کا آپ کے دامن کرم سے وابستہ ہوکر توبہ کرنے کی روایت سیرت وسوانح کی تقریباً تمام کتابوں میں موجود ہے،
آپ توجہ دیں تو میں ان کے ملفوظات سے استفادہ کرتے ہوئے چند باتیں رقم کروں
”دلائل العارفین“ یہ خواجہ صاحب کے علمی روحانی مجالس کےارشادات اور ملفوظات کا مجموعہ ہے اس کے مرتب آپ کے مرید وخلیفہ قطب الاقطاب حضرت سیدنا خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں، یہ مجموعہ بارہ مجالس پر مشتمل ہے ملفوظات کا ایک ایک لفظ دنیا وآخرت کی کامیابی کا ضامن ہے،
غور کریں! آج کے دور میں میں بہترے جاہل مصنوعی صوفی جو دراصل زندیق ہیں شیطان کا مسخرہ اور آلہ کار ہیں پیری مریدی اور تصوف کے نام پر شریعت سے اپنا دامن بچاکر لہو ولعب عیش کوشی جاہ پرستی میں مصروف ہیں اور کہتے ہیں ہم طریقت معرفت والے ہیں، العیاذ باللہ
”شریعت وطریقت؟
خواجہ صاحب فرماتے ہیں،
پہلی منزل شریعت کی ہے جب آدمی شریعت کا پابند ہوجاتا ہے……. تو وہ یہاں سے دوسرے درجہ میں پہنچ جاتا ہے جسے طریقت کہتے ہیں جب وہ اس درجہ میں ثابت قدم ہوجاتا ہے…. تو پھر وہ معرفت کے مرتبہ میں پہنچ جاتا ہے…. تو اس کے دل میں معرفت کا ایک نور پیدا ہوتا ہے اور جب وہ اس مرتبہ میں ثابت قدم ہوجاتا ہے تو پھر وہاں سے چوتھے مرتبہ میں پہنچ جاتا ہے جسے حقیقت کہتے ہیں پھر وہ اس مقام پر پہنچ کر اللّٰہ تعالیٰ سے جو کچھ طلب کرتا ہے اسے حاصل کر لیتا ہے گویا وہ من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ کا مصداق بن جاتا ہے(مجلس دوم)
” نماز کی اہمیت“؟
نماز کی اہمیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں،کوئی بھی شخص اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ عزت میں نماز کے بغیر قرب حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ یہی نماز ہی معراج المومنین ہے جیساکہ حدیث شریف میں آیا الصلوۃ معراج المومنین یعنی بندہ کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ پیوستہ رکھنے والی نماز ہی توہے،
نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے اللّٰہ سے بیان کرتا ہے،(مجلس اول)
نماز پروردگار کی طرف سے تمام بندوں پر ایک امانت ہے اللّٰہ تعالیٰ کی اس امانت کی حفاظت کرنا تمام بندوں پر واجب ہے اسے اس طرح ادا کریں کہ کہیں بھی خیانت کا شائبہ نہ ہو
پھر فرمایا جب انسان نماز شروع کرے تو رکوع و سجود صحیح طریقہ سے ادا کرے جیساکہ رکوع وسجود کرنے کا حق ہے اسی طرح نماز کے دیگر ارکان بھی صحیح طریقے سے ادا کرے،
ایک مقام پر فرماتے ہیں
جوشخص نماز کو اپنی شرائط کے ساتھ ادا نہیں کرتا وہ نماز کا حق ادا نہیں کرتا گویا وہ بے وقت نماز ادا کرتا ہے،
فرض نماز ہو یا سنت اگر رکوع وسجود میں خرابی واقع ہوجائے تو گویا اسلام اور دین کی بنیاد ہی خرب ہوجاتی ہے
اپنے مرشد سیدنا خواجہ عثمان ہارونی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے فرماتے ہیں
کل قیامت کے دن جو مسلمان نماز کے فریضہ سے عہدہ برآ ہونگے وہی نجات یافتہ ہونگے اور جو نماز کی ادائیگی کے سوال کا جواب نہ دے سکیں گے وہ دوزخ کے شعلہ میں جلائےجائینگے، (مجلس دوم)
نماز کی ذمہ داری بہت اہم ذمہ داری ہے اگر تم اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوگیے تو نجات پاوگے ورنہ ایسی ندامت ہوگی کہ قیامت کے دن منھ کسی کو نہ دکھا سکوگے،
نماز دین کا ستون ہے اور ستون ہی پر مکان کا دار ومدار ہوتا ہے
وہ مسلمان بہت خوش قسمت ہے جو اپنے وقت پر نماز ادا کرتے ہیں (مجلس سوم)
” فرائض وسنن چھوڑ کر اپنی ولایت کے ڈھنڈھوڑے پیٹنے والے کا انجام؟
غور کریں خواجہ صاحب فرماتے ہیں امام خواجہ ابواللیث سمرقندی جو فقہ کے امام ہیں اپنی کتاب تنبیہ میں لکھا ہے،
ہرروز آسمان سے دو فرشتے نیچے زمین پر اترتے ہیں ایک کعبہ شریف کی چھت پر آکر بلند آواز سے کہتا ہے جو شخص اللّٰہ تعالیٰ کی فرض نماز ادا نہیں کرتا وہ اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت سے باہر نکل جاتا ہے یعنی ایسے شخص کو شیطان کبھی بھی گرفت میں لے لیتا ہے اسی طرح دوسرا فرشتہ رسول اللّٰہ صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے گنبد سے کھڑے ہوکر کہتا ہے جو شخص بھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سنتیں ادا نہیں کرتا وہ حضور علیہ السلام کی شفاعت سے محروم رہتا ہے
طہارت وضو کی اہمیت؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں وضو میں ہر عضو کو تین بار دھونا سنت ہے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا کہ ہرعضو کو تین بار دھونا میری بھی سنت ہے اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی سنت ہے
” کھانے پینے کے آداب؟“
فرماتے ہیں رسول اللّٰہ صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا الیمین للوجہ والیسار بالمقعد
دایاں ہاتھ کھانا کھانے کے لیے ہے اور بایاں ہاتھ استنجا کرنے کے لیے ہے،
”مسجد کے آداب؟
جب لوگ مسجد میں آئیں تو تو سنت یہ ہے کہ پہلے دایاں پاوں مسجد میں رکھے اور جب مسجد سے باہر نکلیں تو بایاں قدم باہر رکھیں
”موت کیا ہے؟
ملک الموت کے بغیر اس دنیا کی کوئی حیثیت نہیں حدیث شریف میں ہے الموت جسر یوصل الحبیب إلی الحبیب موت ایک پل ہے جو دوست کو دوست سے ملا دیتا ہے (مجلس دوزدھم)
”قبرستان کے آداب؟
فرماتے ہیں قبرستان میں ہنسنا قطعی منع ہے قبرستان عبرت کی جگہ ہے لھو ولعب(کھیل کود) کا مقام نہیں، قبرستان میں میں نفس کی تسکین کی خاطر دیدہ ودانستہ کھانا پینا گناہ کبیرہ ہے(مجلس چہارم)
”پانچ چیزوں کا دیکھنا عبادت ہے“
والدین کا چہرہ دیکھنا، قرآن شریف دیکھنا، علما کا چہرہ دیکھنا، خانہ کعبہ دیکھنا، پیرومرشد کی زیارت کرنا(مجلس پنجم)
قرآن شریف دیکھنے سے اللّٰہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بینائی بڑھ جاتی ہے اور آنکھ کبھی نہیں دکھتی(مجلس پنجم)
”صحبت کا اثر؟
فرماتے ہیں رسول اللہُ صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا الصحبۃ تؤثر یعنی صحبت اپنا اثر دکھاتی ہے اگر کوئی برا آدمی نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھے گا تو وہ نیک ہوجائیگا اور اگر کوئی نیک آدمی برے لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا تو وہ برا ہوجائیگا
”تعلقات کا معیار؟
فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ کی محبت میں وہ شخص سچا ہے جو اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی خاطر ماں باپ بیٹوں بھائیوں سے بھی قطع تعلق کرلے یعنی ان سے لاتعلق ہوجائے (مجلس دھم)
”سب سے بڑی نیکی؟
حضرت جواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے عرض کرنے پر فرماتے ہیں
عاجزوں کی فریاد رسی حاجت مندوں کی حاجت روائی بھوکوں کو کھانا کھلانا اس سے بڑھ کر خدائے تعالیٰ کے نزدیک کوئی نیک کام نہیں (مجلس ششم)
ایک مقام پر اپنے شیخ سیدنا خواجہ عثمان ہارونی کاقول نقل کرتے ہیں جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہونگی یقیناً سمجھ لو کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے دریا جیسی سخاوت آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع (مجلس نہم)
سلطان الہند عطائے رسول سیدنا خواجہ معین الدین چشتی کی مندرجہ بالا تعلیمات صرف زبانی نہیں بلکہ عملا بھی آپ خود ایسے ہی تھے حضرت سیدنا قطب الدین بختیار کاکی فرماتے ہیں، مدت تک آپ کی خدمت میں رہا مگر میں نے کبھی کسی سائل یا فقیر کو آپ کے در سے محروم جاتے نہ دیکھا آپ کے مطبخ میں اس قدر کھانا بنتا تھا کہ شہر کے تمام غربا ومساکین سیر ہوکر کھاتے تھے خادم مطبخ خرچہ یومیہ کے لیے عرض کرتا آپ مصلی کا گوشہ اٹھاکر فرماتے جس قدر آج کے خرچ کے واسطے درکار ہے لے لے وہ موافق مقدار لے لیتا اور کھانا پکواکر غرباومساکین کو تقسیم کرتا آپ کی مخلوق نوازی کہ آپ غربا اور محتاجوں کی امدادفرماتے تھے بھوکوں کو کھانا کھاتے تھے اپنے محلہ کی بیوگان اور بوڑھی عورتوں کی روزانہ صبح نماز فجر کے بعد خبر گیری فرماتے تھے ان کے کاموں میں ان کی مددکرتے تھے(معین الأرواح مسالک السالکین)
قارئین! خواجہ غریب نواز رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مجلسی ارشادات میں دلائل کا جو التزام فرمایا ہے وہ کچھ اس طرح ہے قرآن و آحادیث کتب فقہ اور پھر بزرگوں کے ارشادات و معمولات کا جگہ جگہ ذکر موجود ہے اس سے خواجہ صاحب کی وسعت علم دقت مطالعہ حاضر ذہنی اور قادرالکلامی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ملفوظات کا مجموعہ دلیل العارفین ان کی حیات و خدمات کے اعتبار سے یوں تو بہت مختصر ہے اور اس میں صرف چند مجالس کی یادیں اور باتیں ہیں لیکن اپنی اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے بڑا جامع اور مفید ہے اور ملفوظات کا یہ عظیم شاہکار ان کے عارف کامل صوفی درویش ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے عظیم محدث مفسر فقیہ ہونے پر بھی عکاس ہے ۔