خطبہ کی اذان کا جواب دینا کیسا ہے

خطبہ کی اذان کا جواب نہ چاہئے

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام جمعہ کے دن خطبہ کی اذان کا جواب کیوں نہیں دیا جاتا مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہو گی۔
المستفتی:قاری ذالقدر رضا اویسی نصرت پور فرخ آباد یوپی

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔

مقتدیوں کو خطبہ کی اذان کا جواب ہرگز نہیں چاہئے یہی احوط ہے اسلئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم امام کے خطبہ کے لئے نکلنے کے بعد نماز و کلام کو مکروہ سمجھتے تھے ۔
ردالمحتار میں ہے "ﻭﺃﺧﺮﺝ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ ﻓﻲ ﻣﺼﻨﻔﻪ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﻭاﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻭاﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻬﻢ ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻜﺮﻫﻮﻥ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﻜﻼﻡ ﺑﻌﺪ ﺧﺮﻭﺝ اﻹﻣﺎﻡ واﻟﺤﺎﺻﻞ ﺃﻥ ﻗﻮﻝ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﺣﺠﺔ ﻳﺠﺐ ﺗﻘﻠﻴﺪﻩ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻨﻔﻪ شیء ﺁﺧﺮ ﻣﻦ اﻟﺴﻨﺔ”

(ج٣،ص٣٨)

ہاں اگر اذان کا جواب اوراسی طرح دونوں خطبوں کے درمیان دعا دل میں کرے تو کوئی حرج نہیں اور اگر امام زبان سے جواب دے یا دعا کرے تو جائز ہے ۔
در مختار میں ہے”اذا خرج الامام من الھجرۃ ان کان والا فقیامہ للصعود فلا صلوۃ ولا کلام الی تمامھا”(ردالمحتار،ج٣،ص٣٨)
نیز ردالمحتار میں ہے "اجابۃ الاذان حینئذ مکروہۃ” یعنی اذان کا جواب اس وقت مکروہ ہے۔

(ج٣،ص٤١)
در مختار میں ہے "و ینبغی ان لا یجیب بلسانہ اتفاقا فی الاذان بین یدی الخطیب” یعنی اس بارے میں اتفاق ہے کہ خطیب کے سامنے والی اذان کا جواب(مقتدی کو) زبان سے نہیں دینا چاہئے ۔

(ردالمحتار،ج١،ص٨٧)
فتاوی رضویہ میں اسی کے مثل سوال کے جواب میں ہے "ہرگز نہ چاہئے یہی احوط ہے”

(ج٨، ص٣٠٠)

واللہ تعالی اعلم
کتبـــــــــہ : مفتی شان محمد المصباحی القادری
٣ نومبر ٢٠٢١

Leave a Reply

%d bloggers like this: