آئیے!تھوڑی دیر قران کا مطالعہ کریں۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
”توریت،انجیل،زبوراور قرآن مجید کا خلاصہ“۔۔۔۔
حضرت سیدنا حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت سیدنا شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھاکہ آپ میری صحبت میں تیس سال رہے،اس طویل عرصے میں تم نے کیا سیکھا؟ حضرت حاتم اصم نے عرض کی،حضور!میں نے آٹھ فائدے آپ کی بارگاہ سے حاصل کیے۔
پہلا فائدہ:دنیا کاہر محبوب ایک وقت تو ساتھ چھوڑ ہی دیتا ہے،سوائے نیک اعمال کے کوئی ایسا دوست نہیں جو قبر تک ساتھ دے سو میں نے نیک اعمال ہی کو اپنا دوست بنا لیا،جیساکہ ارشادنربانی ہے:
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْۚ یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚۛ-یَفْصِلُ بَیْنَكُمْ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(الممتحنۃ،آیت:۳)
ترجمہ:ہرگز کام نہ آئیں گے تمہیں تمہارے رشتے اور نہ تمہاری اولاد قیامت کے دن تمہیں ان سے الگ کردے گا اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے(کنزالایمان)
ایک دوسرے مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ(زخرف:۶۷)
ترجمہ:اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔(کنزالعرفان)
دوسرا فائدہ:نفسانی خواہش کی پیروی کرنے والے دنیا میں بہت ہیں لیکن نفس کی خواہشات کو ترک کرنے والوں ہی کا ٹھکانہ جنت ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى،فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى(النازعات،آیت:۴۰،۴۱)
ترجمہ:اور وہ جو اپنے رب کےحضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔(کنز الایمان)
تیسرا فائدہ:دنیا کا ہر شخص مال ودولت جمع کرنے میں لگا ہے میں نے جو کچھ بھی جمع کیا اللہ کی راہ میں خرچ کیا تاکہ میرے لیے آخرت کا ذخیرہ ہو جائے اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے:
مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ(النحل،آیت:۹۶)
ترجمہ:جو تمہارے پاس ہے ہو چکے گا اور جو اللہ کے پاس ہے ہمیشہ رہنے والاہے۔(کنزالایمان)
چوتھا فائدہ:کوئی قوم اور قبیلہ،کوئی خاندان، کوئی دولت واولاد کوعزت و شرافت کا ذریعہ سمجھتا ہے حالانکہ اللہ کا فرمان ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ(الحجرات،آیت:۱۳)ترجمہ:بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔(کنزالایمان)
سو میں نے تقوی کو اختیار کر لیا۔
پانچواں فائدہ:
شان و عظمت مال و دولت اور علم کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے سے حسد میں مبتلا ہیں قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا(الزخرف،آیت:۳۲)
ترجمہ:ہم نے اُن میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا۔(کنزالایمان)
پس میں اللہ کی تقسیم پر راضی ہوگیا اورحسد کو ترک کر دیا۔
چھٹا فائدہ:لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ایک دوسرے کو اپنا دشمن بنا بیٹھے ہیں حالانکہ شیطان کے سوا کسی سے دشمنی درست نہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ(الفاطر،آیت:۶) ترجمہ:بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے کہ دوزخیوں میں ہوں۔(کنزالایمان)
ساتواں فائدہ:رزق کی فکر نے حلال و حرام سے تمیز اٹھا دی حرام کما کے انسان ذلیل و خوار ہو رہا ہے میرا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر ہے یہ یقین کر کے غیر کے خیال کو دل سے نکال دیا اور اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گیا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ(ھود،آیت:۶)
ترجمہ:اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو۔(کنزالایمان)
آٹھواں فائدہ:کوئی مال پر کوئی اپنےجیسے لوگوں پر بھروسہ کر کے بیٹھا ہے میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اللہ میرے لیے کافی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ(الطلاق،آیت:۳)
ترجمہ:اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اُسے کافی ہے بے شک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے۔(کنزالایمان)
حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سن کر فرمایا:میں نے تورات انجیل زبور اور قرآن مجید کی تعلیمات میں غور کیا تویہی پایااور جس نے ان باتوں پر عمل کیا گویا اس نے ان چاروں کتابوں پر عمل کیا۔
(یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ امام غزالی علیہ الرحمہ کی کتاب”ایھا الولد“میں موجود ہے)
دعاؤں کا طالب:محمد سجاد برکاتی نجمی(خادم التدریس جامعہ حرا نجم العلوم مہاپولی مہاشٹرا)