خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ کا مسئلہ
السلام علیکم،
حضرت خود کشی یا پانی میں ڈوب کر جان دینا ، حرام موت کہلاتی ہے؟؟
اگر ہاں ،تو شریعت میں انکے کیلئے کیا حکم ہے، انکی نمازِ جنازہ پڑنا یا پڑھانا کیسا ہے؟
سائل : محمد امین جلال الدین رضوی گولڈن نگر، مالیگاؤں
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
شریعتِ اسلامی کی نگاہ میں خودکشی فعلِ حرام ہے۔ اس حرمت کا سبب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتِ حیات کا کفران ہے۔ درحقیقت انسان کا مادی وجود اور زندگی کوئی کسبی شے نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو اور نہ یہ اس کی ذاتی ملکیت ہے‘ بلکہ یہ خالصتاً اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے جو انسان امانتاً دی گئی ہے۔ یہ نعمت بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے، اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ زندگی کو درپیش خطرات کے تدارک پر مبنی تعلیمات دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانہِ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ اسی لیے اسلام نے جہاں ایک بیگناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کو موت کے گھاٹ اتارنے کے مترادف قرار دیا ہے‘ وہیں اپنی زندگی ختم کرنے کو بھی ہلاکت و بربادی کا بتایا ہے۔ ارشا ربانی ہے:
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَo
’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘
البقرة، 2: 195
امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے:
وَقِيلَ: أَرَادَ بِهِ قَتْلَ الْمُسْلِمِ نَفْسَهُ.
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: اس آیت میں کسی مسلمان کی خودکشی کو ہلاکت قرار دیا گیا ہے۔
بغوي، معالم التنزيل، 1: 418، بيروت: دار المعرفة
ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلاَ تَقْتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًاo
اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہے۔ اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے۔
النساء، 4: 29، 30
امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
{وَلاَ تَقْتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمْ} يَدُلُّ عَلَی النَّهْیِ عَنْ قَتْلِ غَيْرِهِ وَعَنْ قَتْلِ نَفْسِهِ بِالْبَاطِلِ.
{اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو} یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔
رازي، التفسير الکبير، 10: 57، بيروت: دار الكتب العلمية
اور احادیث مبارکہ میں بھی خودکشی کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى فِيهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ، فَحَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَجَأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا.
جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔
بخاري، الصحيح، کتاب الطب، باب شرب السم والدواء به وبما يخاف منه والخبيث، 5: 2179، رقم: 5442، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1: 103، رقم: 109، دار احياء التراث العربي
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ۔
جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔
بخاري، الصحيح،کتاب الأدب، باب من أکفر أخاه بغير تأويل فهوکما قال، 5: 2264، رقم: 5754
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1: 104، رقم: 110
مذکورہ بالا حدیث میں ’خلود فی النار‘ یعنی دوزخ میں مستقل رہنا ایسی سزاء ہے جو اہل سنت کے نزدیک کفار کیلئے ہی مختص ہے‘ اسی بناء پر بعض علماء نے خیال کیا ہے خودکشی کرنے والا دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اس لیے اس کے تجہیز و تکفین کی بھی مخالفت کی ہے۔ لیکن مذاہب اربعہ میں اس بات پر اتفاق ہے کہ خودکشی کرنے والا دین سے خارج نہیں ہوتا اس لیے خودکشی کرنے والے کو غسل دیا جائے، اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے اور اس کے لیے دعائے مغفرت بھی کی جائے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس غیرشرعی عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کی غرض سے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ ادا کرنے سے انکار فرمایا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک تیر سے ہلاک کر لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
مسلم، الصحیح، كتاب الجنائز، باب ترك الصلاة على القاتل نفسه، 2: 672، رقم: 978
ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ:
’اما انا لااصلی علیه‘
جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اس (خودکشی کرنے والے) کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں فرمائی مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اجازت دی کہ اس کی نماز جنازہ ادا کریں۔ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل خود كشى سے نفرت پر محمول ہے، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے حكم سے صحابہ كرام نے مقروض كى نماز جنازہ ادا كى مگر آپ اس میں شریک نہیں ہوئے‘ يہ بھی قرض سے نفرت دلانے كے ليے تھا‘ اس ليے نہيں كہ مقروض كافر ہو گیا ہو۔ فقہائے احناف کا مؤقف بھی یہی ہے کہ خودکشی کرنے والے کو غسل دے کر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ علامہ محمد بن علی المعروف علاء الدین حصکفی فرماتے ہیں:
مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ وَلَوْ عَمْدًا يُغَسَّلُ وَيُصَلَّى عَلَيْهِ بِهِ يُفْتَى ۔
جس نے اپنے آپ کو قتل کر دیا اگرچہ جان بوجھ کر ہو، اسے غسل دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اسی پر فتوی ہے۔
حصكفي، الدرالمختار، 2: 211، بيروت: دار الفكر
آقا علیہ السلام کا صحابہ کرام کو خودکشی کرنے والے کا جنازہ ادا کرنے کی اجازت دینا اور فقہائے کا اس کی تجہیز و تکفین پر متفق ہونا خودکشی کرنے والے کی جنازہ ادا کرنے کے جواز کی دلیل ہے۔ تاہم ایسے علماء و صلحاء جو خلقِ خدا کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ان کے لیے اس سلسلے میں دو صورتیں ہوسکتی ہیں: ایک یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں شرکت کر کے شرکائے جنازہ کو اس قبیح فعل کی سنگینی اور شرعی احکام سے آگاہ کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے بارے میں بتائیں کہ کس طرح آپ نے خودکشی کرنے والے کی جنازہ ادا نہ فرما کر اس سے اعلانِ برات کیا ہے تاکہ عامۃ الناس اس فعلِ حرام کے مرتکب نہ ہوں۔ دوسری صورت خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہ کرنے کی ہے‘ جب حالات ایسے ہوں کہ جنازہ میں شرکت نہ کرنا لوگوں کو اس کے ارتکاب سے روک سکتا ہو یا اس جرم کی سنگینی کا احساس دلا سکتا ہو تو ایسا کرنے کی بھی اجازت ہے.
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
کتبـــــــــہ : مفتی محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں