نعوذ باللہ خدا کو جہنمی کہنے والے کے لئے کیا حکم ہے ؟

خدا کو جہنمی کہنے والے کے لئے کیا حکم ہے ؟

سوال : میں ایک مسجد میں امامت کا کام انجام دیتا ہوں ایک روز رمضان شریف کے ماہ میں جمعہ کے دن نماز سے پہلے ان اللہ مع الصابرین کی روشنی میں تقریر کرتے ہوئے آگے بڑھا ۔ یہاں تک کہ جمعہ کا خطبہ اور جمعہ کی فرض نماز جماعت کے ساتھ میں نے پڑھایا ۔ عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میرے ہی موضع کے تین طالب علم نوجوان شخصوں نے مجھ پر اعتراض کیا کہ آیت مذکورہ کا ترجمہ کرتے ہوئے تقریر کے درمیان آپ نے یہ کہا ہے کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ اور صبر کرنے والے گناہ گار انسان جب جہنم میں جائیں گے تو خدا بھی اس انسان کے ساتھ جہنم میں جائے گا ۔ جبکہ میں نے اپنی تقریر کے درمیان کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس میں خدا کو جہنمی قرار دیا ہو ۔

اور میرے اس قول پر میرے مقتدی میں سے صرف ایک شخص میری بات کی تصدیق کرتا ہے ، باقی عوام کو کچھ کچھ یاد نہیں کہ میں نے کیا کہا ہے ۔ لہذا آپ حضور والا سے گزارش ہے کہ تین شخصوں کے کہنے کے مطابق میں اور ایک مقتدی کے مطابق از روئے شرع کس حکم کے سزاوار ہیں ۔

بینوا و توجروا

نوٹ : خدا کو جہنمی قرار دینے والے کا عقد باقی رہا یا نہیں؟

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اگر آپ نے یہ جملہ نہیں کہا ہے کہ صبر کرنے والے گناہ گار انسان جب جہنم میں جائیں گے تو خدا بھی اس انسان کے ساتھ جہنم میں جائے گا ۔مگر طلبہ اس جملہ کو آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں تو وہ سخت گنہگار ہیں، توبہ کریں ۔ اور اگر طلبہ نے اس جملہ کو بطور معارضہ پیش کیا کہ جب اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے تو کیا صبر کرنے والے گناہ گار انسان جب جہنم میں جائیں گے تو خدا بھی اس انسان کے ساتھ جہنم میں جائے گا ، تو انہوں نے اپنی جہالت سے معیت مکانی سمجھ کر معارضہ پیش کیا ۔ حالانکہ معیت سے مراد معیت بالعون والنصر ہے جو متقین، محسنین اور صابرین کے ساتھ خاص ہے ۔ جیسا کہ تفسیروں میں مذکور ہے ۔ المعیۃ بالعون والنصر وھذا خاصۃ بالمتقین و الحسنین و الصابرین ۔

اور یا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے معیت کے معنی کی تشریح نہیں کی جو عوام کے لیے ضروری تھی ۔ بہرحال اس انداز کی گفتگو سے احتراز لازم ہے ۔
و اللہ تعالی اعلم

جواب نوٹ : استفتاء کی عبارت سے ظاہر یہ ہے کہ کسی نے خدائے تعالیٰ کو جہنمی نہیں قرار دیا ہے ۔ لیکن اگر کوئی خدائے تعالی کو جہنمی قرار دے نعوذ باللہ من ذالک تو اس کا نکاح ضروری ٹوٹ جائے گا کہ یہ صریح کفر ہے ۔

ماخوذ از فتاویٰ فیض الرسول، کتاب العقائد صفحہ 5 ۔

Leave a Reply