خودکلامی کرنے والے کی طلاق کا حکم
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔۔
زید کو بڑ بڑانے یعنی اپنے آپ سے گفتگو کرنے کی عادت ہے جیسے بعض پاگل لوگ میں ہوتی ہے وہ مُخَاطَب اور مخاطِب دونوں خود ہی بن کر بکتے رہتے ہیں لیکن زید صاحب عقل ہے۔
زید کی اپنی بیوی سے کسی بات میں فون پر تکرار ہوئی جس پر اس نے کہا میں گھر آکر تمہیں طلاق دے دوں گا۔ پھر بعد میں جب اس پر بڑبڑانے والی کیفیت طاری ہوئی تو اس نے اس میں بیوی کو تین طلاق دیا یا چھوڑ دیا اس طرح کی باتیں کی تو بڑاہٹ میں طلاق دینے سے کیا زید کی بیوی پر طلاق واقع ہو گئی یا نہیں. اگر طلاق واقع ہوگئی تو اب زید کیا کرے جس سے بیوی کو دوبارہ رکھ سکے۔
استاذ گرامی وقار کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔۔
محمد دانش انور علیمی،بانکا (بہار)
الجواب:
صورتِ مسئولہ میں جب کہ زید صاحبِ عقل ہے اور اس نے اپنی بیوی کو بڑبڑانے کی حالت میں تین طلاق دی تو اگر جماع یا خلوتِ صحیحہ کے بعد تین طلاق دی ہو تو اس کی بیوی پر تینوں طلاق ہوجائے گی۔ اور اگر نہ تو جماع ہوا اور نہ ہی خلوت صحیحہ ہوئی ہو تو اگر تینوں طلاق ایک ساتھ دی، مثلا: یوں کہا کہ اپنی بیوی فلانہ کو تین طلاق دی تب بھی تینوں طلاق پڑجائے گی ۔ اور اگر اس صورت میں ایک وقت میں الگ الگ جملوں سے تین طلاق دی، مثلا: یہ کہا کہ میں نے اپنی بیوی فلانہ کو طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی ۔ یا الگ الگ وقتوں میں کہا ” میں نے اپنی بیوی فلانہ کو طلاق دی” تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوگی ۔
تین طلاق واقع ہوجانے کی صورت میں عورت خود مختار ہے کہ عدت گزرنے کے بعد جس سے چاہے نکاح کرلے (اور غیر مدخولہ ہونے کی صورت میں بعد تین طلاق فوراً دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے) اب اس نکاحِ دوم کے بعد اس کا شوہرِ دوم اگر وطی کے بعد اس کو نہ رکھے اور طلاق دیدے یا اس کی موت ہوجائے اور یہ عورت اور اس کا پہلا شوہر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو شوہرِ دوم کی عدت طلاق یا عدت وفات گزر جانے کے بعد باہمی رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں۔
در مختار میں ہے:
"(وَيَقَعُ طَلَاقُ كُلِّ زَوْجٍ بَالِغٍ عَاقِلٍ)” (درمختار ج۴ ص۴٣٨)
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
” غیر مدخولہ کو کہا تجھے تین طلاقیں تو تین ہوں گی ۔اوراگر کہا تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق۔ یاکہاتجھے طلاق، طلاق، طلاق ۔ یا کہا تجھے طلاق ہے ایک، اور ایک، اور ایک۔ تو ان صورتوں میں ایک بائن واقع ہوگی۔ باقی لغو و بیکار ہیں ۔ یعنی چند لفظوں سے واقع کرنے میں صرف پہلے لفظ سے واقع ہوگی اور باقی کے لیے محل نہ رہے گی اور موطؤہ میں بہر حال تین واقع ہوں گی” (بہارِ شریعت ح ٨ص١٢۵)
اور تحریر فرماتے ہیں:
"حلالہ کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت مدخولہ ہے تو طلاق کی عدت پوری ہونے کے بعد عورت کسی اور سے نکاح صحیح کرے اور یہ شوہر ثانی اُس عورت سے وطی بھی کرلے ، اب اس شوہر ثانی کے طلاق یا موت کے بعد عدت پوری ہونے پر شوہرِ اول سے نکاح ہو سکتا ہے۔ اور اگر عورت مدخولہ نہیں ہے تو پہلے شوہر کے طلاق دینے کے بعد فوراًدوسرے سے نکاح کر سکتی ہے کہ اس کے لیے عدت نہیں ” (بہار شریعت ح ٨ص١٧٧)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔
٣/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//١۵/جون ٢٠٢١ء
صدقہ جاریہ کی نیت سے اپنے دوست و احباب کو ضرور شئر کریں