انبیاء کرام علیہم السلام اورہمارے اسلاف کاکھیل سے احتراز
حضورتاجدارختم نبوتﷺکاکھیل سے اجتناب
عن ابْن عَبَّاس قَالَ کَانَت حلیمۃ تحدث أَنَّہَا أول مَا فطمت رَسُول اللہ فَقَالَ اللہ أکبر کَبِیرا وَالْحَمْد للہ کثیرا وَسُبْحَان اللہ بکرَۃ وَأَصِیلا فَلَمَّا ترعرع کَانَ یخرج ینظر إِلَی الصّبیان یَلْعَبُونَ فیجتنبہم ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت سیدتناحلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ جب انہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو دودھ پلانے کی مدت پوری کی توآپﷺنے سب سے پہلاکلام جوفرمایاوہ یہ تھاکہ {اللہ أکبر کَبِیرا وَالْحَمْد للہ کثیرا وَسُبْحَان اللہ بکرَۃ وَأَصِیلا}اورجب بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺگھرسے باہرتشریف لے جاتے اوربچے کھیل رہے ہوتے توآپﷺان سے اجتناب فرماتے تھے۔
(سمط النجوم العوالی:عبد الملک بن حسین بن عبد الملک العصامی المکی (۱:۳۰۸)
میں کھیل کے لئے نہیں پیداکیاگیا
قِیلَ:إِنَّہُ قَالَ لَہُ یَوْمًا الصِّبْیَانُ أَمْثَالُہُ:یَا یَحْیَی اذْہَبْ بِنَا نَلْعَبْ فَقَالَ لَہُمْ:مَا لِلَّعِبِ خُلِقْتُ.
ترجمہ :حضرت سیدنایحی علیہ السلام زمانہ بچپن میں کھیلنے والے بچوں کے پاس سے گزرے ، لڑکوں نے آپ علیہ السلام کوکھیلنے کی دعوت دی توآپ علیہ السلام نے فرمایا:کھیل کیاچیز ہے ؟ میں تواس کے لئے پیدانہیں کیاگیا۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد بن محمد ، عز الدین ابن الأثیر (ا:۲۶۰)
ایک بچے کاحضرت بہلول داناکوجواب
وعن بہلول رحمہ اللہ قال بینما انا ذات یوم فی بعض شوارع البصرۃ إذ الصبیان یلعبون بالجوز واللوز وإذا انا بصبی ینظر إلیہم ویبکی فقلت ہذا صبی یتحسر علی ما فی أیدی الصبیان ولا شیء معہ فیلعب بہ فقلت لہ ای بنی ما یبکیک اشتر لک من الجوز واللوز ما تلعب بہ مع الصبیان فرفع بصرہ الیّ وقال یا قلیل العقل ما للعب خلقنا فقلت ای بنی فلماذا خلقنا فقال للعلم والعبادۃ فقلت من این لک ذلک بارک اللہ فیک قال من قول اللہ عز وجل أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ إِلَیْنا لا تُرْجَعُونَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنابہلول دانارحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں بصرہ کی کسی سڑک پرسفرکررہاتھا،ایک مقام پردیکھاکہ لڑکے بادام اوراخروٹ کے ساتھ کھیل رہے تھے ، لیکن ایک لڑکااس حسرت سے رورہاتھاکہ دوسروں کے پاس بادام اوراخروٹ ہیں اوروہ خالی ہاتھ کھڑاہے ، حالانکہ حقیقت کچھ اورتھی ، میں نے اس کے قریب جاکرپوچھا: بیٹا!توکیوں رورہاہے؟ اگرتیرے پاس بادام اوراخروٹ نہ ہوں تومیں تجھے خریدکردے دوں؟ تاکہ تم بھی ان کے ساتھ کھیلو، لڑکے نے میری بات سن کرمجھے غصے سے دیکھااورکہا: اے بے عقل !ہم کھیل کود کے لئے پیدانہیں ہوئے ، میں نے پوچھاکہ تم کس لئے پیداکئے گئے ہو؟ تواس نے جواب دیاکہ ہم توعلم سیکھنے اوراللہ تعالی کی عبادت کرنے کے لئے پیداکیے گئے ہیں۔ میںنے اس سے سوال کیاکہ تم کوکیسے معلوم ہوا؟ اس نے جواب دیاکہ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں فرمایاگیاہے { أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ إِلَیْنا لا تُرْجَعُونَ }(کیاتم کویہ گمان ہے کہ تم کو ہم نے عبث پیداکیاہے تم ہماری طرف لوٹوگے)
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۹۳)
میں یہاں ہاتھی دیکھنے نہیں آیا
وسبب ذلک فیما یروی أنہ کان فی مجلس مالک مع جماعۃ من أصحابہ، فقال قائل قد حضر الفیل، فخرج أصحاب مالک کلہم لینظروا إلیہ، ولم یخرج یحیی، فقال لہ مالک:مالک لا تخرج فتراہ لأنہ لا یکون بالأندلس فقال:إنما جئت من بلدی لنظر إلیک وأتعلم من ہدیک وعلمک، ولم أجء لأنظر إلی الفیل، فأعجب بہ مالک وسماہ عاقل أہل الأندلس۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد کا نام حضر ت سیدنایحییٰ بن یحییٰ اللیثی رحمہ اللہ تعالی تھا۔ یہ مسجد نبویﷺ میں امام مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں ہاتھی آ گیا، کوئی شخص لے آیا ہو گا۔ مدینہ شریف کے اکثر لوگوں اور طلبہ نے اس سے پہلے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ طلبہ نے امام مالک رضی اللہ عنہ سے اجازت لی اور ہاتھی دیکھنے چلے گئے، مگر یحییٰ اللیثی رحمہ اللہ تعالی نہ گئے۔ امام مالک رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یحییٰ!کیا تم نے پہلے کبھی ہاتھی دیکھ رکھا ہے؟ یحییٰ نے جواب دیا کہ نہیں تو۔امام مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:تمہارے دوسرے ساتھی تو ہاتھی دیکھنے چلے گئے ہیں، تم کیوں نہیں گئے؟ یحییٰ اللیثی نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ میں نے اپنے وطن کو اس لئے چھوڑا کہ میں امام مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھوں، ان سے علم حاصل کروں۔ میں ہاتھی دیکھنے کیلئے تو مدینہ شریف نہیں آیا۔امام مالک رضی اللہ عنہ نے ان کانام عاقل اہل الاندلس رکھا( اہل اندلس کادانشور)۔
(وفیات الأعیان:أبو العباس شمس الدین أحمد بن محمد بن إبراہیم بن أبی بکر ابن خلکان(۶:۱۴۴)
حصول علم کی تحریک کیسے پیداہوئی ؟
وقال الشیخ محمد بن قائد الأَوَانی وسیأتی ذکرہ فی ہذا الکتاب :کنتُ عند سیدنا عبد القادر رضی اللہ عنہ ،فسألہ سائل:علامَ بنیت أمرک؟ قال:علی الصدْق،ما کذبتُ قَطُّ،ولا لما کنتُ فی المکتب، ثم قال:کنتُ صغیرًا فی بلدنا، فخرجتُ إلی السَّواد فی یوم عَرَفۃ، وتبعت بقرًا حَرَّاثۃ، فالتفتتْ إلیَّ بقرۃ، وقالت لی:یا عبد القادر، ما لہذا خُلِقْتَ، ولا بہذا أُمرتَ فرجعتُ فَزِعًا إلی دارنا، وصَعِدْتُ إلی سطح الدَّار، فرأیتُ النَّاس واقفین بعرفات، فجِئْتُ إلی أُمی، وقلتُ لہا:ہبینی للہ عزَّ وجلَّ، وَأْذنی لی فی المسیر إلی بغداد أشتغل بالعِلْم، وأزور الصَّالحین فسألتنی عن سبب ذلکَ؟ فأخبرتُہاخبری، فبکَتْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناالشیخ الامام محمدبن قائد الاوانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدناالشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہتاتھا، ایک دن کسی نے آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیاکہ آپ رضی اللہ عنہ کے امر کی بنیاد کس چیز پر رکھی گئی ہے ؟ توالشیخ الامام ا لجیلانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کہ میرے امر کی بنیاد صدق پر رکھی گئی ہے ۔میںنے کبھی بھی کذب بیانی سے کام نہیں لیا۔
ایک دن حج کے دنوں میں میں بچپن میں جنگل چلاگیاتوایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہاتھاکہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: اے عبدالقادر! تم کو اس کے لئے پیدانہیں کیاگیااورنہ ہی تم کو اس کاحکم دیاگیاہے ۔ تو میں ڈرگیااوراپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیاتو میںنے اپنے گھر کی چھت سے میدان عرفات میں بیٹھے ہوئے حاجیوں کودیکھا، اس کے بعد میںنے اپنی والد ہ ماجدہ رضی اللہ عنہاکی خدمت اقدس میں عرض کی : کہ آپ مجھے اللہ تعالی کے راہ میں وقف کردیں ،اورمجھے بغدادجانے کی اجازت عطافرمائیں ۔ کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں اور اللہ تعالی کے نیک بندوںکی زیارت کروں ۔آپ رضی اللہ عنہانے مجھ سے اس کاسبب دریافت فرمایا: میں نے بیل والاقصہ عرض کیاتو آپ رضی اللہ عنہاکی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
(مرآۃ الزمان فی تواریخ الأعیان :شمس الدین المعروف بـ سبط ابن الجوزی (:۲۱:۸۱)
توکھیل کے لئے نہیں پیداہوا
قال الشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہ کنت صغیراً فی اھلی کلماھممت ان العب مع الصبیان اسمع قائلاً یقول لی :یامبارک ! فاھرب فزعاً والقی نفسی فی حجرامی ۔
ترجمہ :الشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب اپنے گھر رہتاتھااورمیرابچپن کازمانہ تھا جب کبھی کھیلنے کاارادہ کرتاتو میں کسی کو کہتے ہوئے سنتا: اے برکت والے ! بس میں ڈرجاتااورگھرکی طرف دوڑتاہواآتااوراپنے آپ کو اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں گرادیتا۔
(اتحاف الاکابرفی سیرۃ ومناقب الامام محیی الدین عبدالقادرلشیخ عبدالمجید بن طہ الدھیبی : ۱۹۸)
محدث ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی کاتعلیمی بچپن
نشأ ابن الجوزی منذ نعومۃ أظفارہ یحب العلم ویختلف إلی العلماء (ولم یکن یفعل مثل الصبیان یلعبون ویلہون ویضیعون أوقاتہم فی اللعب والجری، ولکنہ أوقف نفسہ علی الحفظ والتوغل فی العلم، وقد کان لا یخرج من بیتہ إلا للجمعۃ ولا یلعب مع الصبیان) .
ترجمہ :محدث ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی اپنے بچپن سے ہی علم کے ساتھ محبت فرماتے تھے اورعلماء کرام کی خدمت میں حاضری دیاکرتے اور بچوں کی طرح کھیل کود اورلہوولعب میں مشغول نہ ہوتے تھے، اپنے آپ کوعلم کے یادکرنے میں مشغول رکھتے تھے ، اپنے گھرسے صرف جمعہ اداکرنے کے لئے نکلاکرتے تھے اوربچوں کے ساتھ بالکل نہ کھیلتے تھے۔
(مجلۃ البحوث الإسلامیۃ :الرئاسۃ العامۃ لإدارات البحوث العلمیۃ(۳۱:۲۳۴)
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی کاکھیل سے احتراز
آپ رحمہ اللہ تعالی خوداپناحال بیان کرتے ہیں کہ مطالعہ کرنامیراشب وروز کامشغلہ تھا، ۔ بچپن سے ہی میرایہ حال تھاکہ مجھے نہیں معلوم تھاکہ کھیل کودکیاہے ، خواب ، مصاحبت ، آرام وآرائش کے کیامعنی ہیں ، میں نہیں جانتاکہ سیرکیاہوتی ہے ؟ تحصیل علم کی مشغولیت کی بناء پرکھاناکبھی وقت پرنہیں کھایااورنیندبھربھی نہیں سویا، کبھی مطالعے کے دوران میں ایسابھی ہواکہ آدھی رات گزرگئی ، میرے والد ماجد رحمہ اللہ تعالی مجھے فرماتے کہ کیاکرتے ہو؟ میں سنتے ہی فوراًلیٹ جاتاتاکہ جھوٹ واقع نہ ہواورکہتاکہ میں سوتاہوں ، آپ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب وہ مطمئن ہوجاتے تومیں اٹھ بیٹھتااورمشغول ہوجاتااوربسااوقات یوں بھی ہواکہ مطالعے کے دوران نیندکے غلبے سے سرکے بال اورعمامہ وغیرہ چراغ میں جل جاتے لیکن میں بدستورمطالعہ میں مصروف رہتا۔
(اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ لشیخ عبدالحق محدث دہلوی ( ۱: ۳۴)
کھیلنے سے میری طبیعت خوش نہیں ہوتی
شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سخت سردی اورسخت گرمی کے دنوں میں دہلی کے مدرسہ میں جایاکرتاتھاجوہمارے مکان سے تقریباًدومیل کے فاصلے پرتھا، دوپہرکوگھرٹھہرکردولقمے ضرورکھالیتا، میرے والدین ہرچندکہتے تھے کہ دوپہرکو محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیل کودمیں حصہ لیاکرواوروقت پرسوجایاکرو، میں کہتاتھاکہ آخرکھیل کود سے مقصددل کو خوش کرناہی ہے تومیری طبیعت اسی سے خوش ہوتی ہے کہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین کے مسائل کچھ پڑھوں یاکچھ لکھوں۔عام طورپربچوںکے والدین اپنے بچوں کوپڑھنے کی تلقین کیاکرتے ہیں مگرمیرے والدین میرے بہت زیادہ پڑھنے کی وجہ سے مجھے کھیلنے کاکہاکرتے تھے۔
(سوانح شیخ عبدالحق بحوالہ کامیاب طالب علم از ہمشیرہ محمدصدیق: ۱۱۱)
علامہ جلال الدین رحمہ اللہ تعالی کابیان
حضرت فقیہ رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں مولاناجلال الدین رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ میں ان کوبچپن سے جانتاہوں میںنے کبھی بھی ان کو کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ جب بھی دیکھاانکو مطالعہ کرتے ہوئے پایا۔
(کامیاب طالب علم از ہمشیرہ محمدصدیق: ۱۰۳)
زندگی کامقصدبھلاکرکھیل کود میں مصروف ہونے والوں سے دوری اختیارکرنے کابیان
کھلاڑی اہل حق کے ساتھ کھڑانہیں ہوگا
وَسُئِلَ مُحَمَّد بن کَعْب الْقرظِیّ عَن اللعب بالشطرنج فَقَالَ أدنی مَا یکون فِیہَا أَن اللاعب بہَا یعرض یَوْم الْقِیَامَۃ أَوقَالَ یحْشر یَوْم الْقِیَامَۃ مَعَ أَصْحَاب الْبَاطِل۔
ترجمہ :امام محمدبن کعب القرظی رحمہ اللہ تعالی سے شطرنج کے متعلق سوال کیاگیاتوآپ رحمہ اللہ تعالی نے جواب دیاکہ جوبھی شخص اس کو کھیلتاہے وہ قیامت کے دن اہل باطل کے ساتھ اٹھے گا۔
(الکبائر: لشمس الدین أبی عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی :۹۰)
ایک حق گوعالم کاکھلاڑیوں کے اوزارتوڑنا
أَنَّ أَبَا غِیَاثٍ الزَّاہِدَ رَأَی فِی بُخَارَی غِلْمَانَ الْأَمِیرِ یَلْعَبُونَ بِالْمَلَاہِی فَحَمَلَ عَلَیْہِمْ بِالْعَصَا فَفَرُّوا مُنْہَزِمِینَ فَدَعَا بِہِ الْأَمِیرُوَقَالَ أَمَا عَلِمْت أَنَّ مَنْ یَخْرُجُ عَلَی السُّلْطَانِ یُسْجَنُ، فَقَالَ الزَّاہِدُ أَمَا عَلِمْت أَنَّ مَنْ یَخْرُجُ عَلَی الرَّحْمَنِ یَتَعَشَّی فِی النِّیرَانِ، فَقَالَ الْأَمِیرُ مَنْ وَلَّاک الْحِسْبَۃَ أَیْ خِدْمَۃَ الِاحْتِسَابِ، قَالَ الَّذِی وَلَّاک الْإِمَارَۃَ، فَقَالَ وَلَّانِی الْخَلِیفَۃُ، قَالَ الزَّاہِدُ وَلَّانِی رَبُّ الْخَلِیفَۃِ، فَقَالَ وَلَّیْتُک الْحِسْبَۃَ بِسَمَرْقَنْدَ، قَالَ عَزَلْت نَفْسِی عَنْہَا،فَقَالَ الْعَجَبُ مِنْ أَمْرِک تَحْتَسِبُ حِینَ لَمْ تُؤْمَرْ وَتَمْتَنِعُ حِینَ تُؤْمَرُ، قَالَ إنْ وَلَّیْتنِی عَزَلْتنِی وَإِذَا وَلَّانِی رَبِّی لَمْ یَعْزِلْنِی أَحَدٌ۔
ترجمہ :حضرت امام ابوغیث الزاہدرحمہ اللہ تعالی نے بخاری میں حاکم وقت کے بیٹوں کوکھیل کودکرتے ہوئے دیکھاتواپنے عصاکے ساتھ ان کو خوب مارااوران کے اوزارتوڑ دیئے،وہ لڑکے بھاگ کرحاکم کے پاس گئے تواس نے آپ رحمہ اللہ تعالی کوبلایا، جب آپ وہاں پہنچے توحاکم نے کہاکہ کیاآپ کومعلوم نہیں کہ جو شخص حاکم کے حکم کی خلاف ورزی کرتاہے اس کو جیل میں ڈال دیاجاتاہے ؟ آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: کیاتم کو معلوم نہیں کہ جو شخص رحمن عزوجل کے حکم کی خلاف ورزی کرتاہے تواسے دوزخ میں ڈال دیاجاتاہے ۔ حاکم نے کہاکہ آپ کوکس نے محتسب بنایاہے ؟ آپ نے جواباًفرمایاکہ جس نے تجھے والی بنایاہے ، حاکم نے کہاکہ مجھے توخلیفہ نے بنایاہے ، آپ نے فرمایاکہ مجھے خلیفہ کے بھی رب تعالی نے بنایاہے ، حاکم کہنے لگاکہ میں آپ کو سمرقندکامحتسب مقررکرتاہوں ، آپ نے فرمایاکہ میں خود کواس عہدے سے جداکرتاہوں ۔ حاکم نے کہاکہ مجھے تم پرتعجب ہے کہ میں تمھیں محتسب بناتاہوں توبنتے نہیںہو اورخود سے وہی کام کرتے ہو؟ آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: اگرتونے مجھے محتسب بنایاتوتومجھے معزول کردے گامگررب تعالی جسے محتسب بنائے پھراسے معزول نہیں فرماتا۔
(بریقۃ محمودیۃ:محمد بن محمد بن مصطفی بن عثمان، أبو سعید الخادمی الحنفی (۲:۱۶۷)
مولاعلی رضی اللہ عنہ کاکھلاڑیوں پرحملہ کرنا
أن علیا مر بقوم یلعبون بالشطرنج فوثب علیہم فقال أما واللہ لغیر ہذا خلقتم ولولا أن یکون سبۃ لضربت بہا وجوہکم ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ ایک قوم کے پاس سے گزرے تووہ شطرنج کھیل رہے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ انہیں دیکھتے ہی جھپٹ پڑے ۔اورفرمایاآج میں تمھارے منہ توڑدیتا۔
(مختصر تاریخ دمشق :محمد بن مکرم بن علی، أبو الفضل، جمال الدین ابن منظور الانصاری (۱۸:۲۲۶)
کھلاڑیوں کے پاس گزرتے توان کوکیاپیغام دیتے ؟
صلۃ بن أشیم العدوی رضی اللہ تعالی عنہ کان یقول إذا مر بقوم یلعبون أخبرونی عن قوم أرادوا سفراً فقطعوا النہار فی اللعب شغلاً عن الطریق وناموا لیلاً متی یصلون مقصدہم.
ترجمہ :حضرت سیدناصلۃ بن اشیم العدی رضی اللہ عنہ جب کسی قوم کے پاس سے گزرتے اوروہ کھیل رہے ہوتے توانہیں فرماتے تھے کہ تم مجھے یہ بتائوکہ کوئی قوم ایسی ہوجوسارادن کھیل میں مشغول رہے اورسفرنہ کرے اوررات ساری سوئی رہے توبتائوکیاوہ اپنے مقصدکو پالے گی۔
(الطبقات الکبری :عبد الوہاب بن أحمد بن علی الحَنَفی الشَّعْرانی، أبو محمد (ا:۳۱)
آج ایک ایک اسٹیڈیم میں پچاس ہزاریاایک لاکھ تک لوگ ہوتے ہیں اوروہ سارے کے سارے میچ دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں اوران میں ایک بھی نماز نہیں پڑھتا۔ اوریہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کامقصدہی کھیل کوبنالیاہے ۔
حشرکی طرف پہلاقافلہ جاچکااورآخری قافلہ کھیل میں مشغول ہے
وَرُوِیَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ أَیْضًا أَنَّہُ قَالَ:یَا عَجَبًا کُلَّ الْعَجَبِ مِنْ قَوْمٍ أُمِرُوا بِالزَّادِ، وَنُودُوا بِالرَّحِیلِ، وَقَدْ جَلَسَ أَوَّلُہُمْ لَآخِرِہِمْ وَہُمْ قُعُودٌ یَلْعَبُونَ،أَوْ قَالَ:جَلَسَ أَوَائِلُہُمْ وَہُمْ یَلْعَبُونَ.
ترجمہ :امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ تعجب اس قوم پرہے جن کو علم دیاگیاہے ، زادراہ تیارکرنے کااورنقارہ بج چکاہے ، پہلاقافلہ جاچکاہے اورپیچھے والے کھیل کودمیں مشغول ہیں۔
(تنبیہ الغافلین :أبو اللیث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراہیم السمرقندی (ا:۵۶۲)
کھلاڑیوں کے کھیل کاسامان اگرکوئی توڑدے تو۔۔۔
وَقَالَ أَبُو دَاوُد:سَمِعْت أَحْمَدَ یُسْأَلُ عَنْ قَوْمٍ یَلْعَبُونَ بِالشِّطْرَنْجِ، فَنَہَاہُمْ فَلَمْ یَنْتَہُوا، فَأَخَذَ الشِّطْرَنْجَ فَرَمَی بِہِ؟ قَالَ:قَدْ أَحْسَنَ قِیلَ:فَلَیْسَ عَلَیْہِ شَیْء ٌ؟ قَالَ:لَا، قِیلَ لَہُ:وَکَذَلِکَ إنْ کَسَرَ عُودًا أَوْ طُنْبُورًا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
ترجمہ :امام ابودائودرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ سے سناجب آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیاگیاایک قوم شطرنج کھیل رہی ہوتوکیاان کی شطرنج کوتوڑاجاسکتاہے ؟ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی نے جواب دیاکہ بالکل بہت اچھی بات ہے ، پھراس سائل نے عرض کی : اگرہم ان کے شطرنج کو توڑدیں توکیاہم پرکوئی جرمانہ تونہیں ہوگا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ بالکل کوئی جرمانہ نہیں ہوگا، پھرسائل نے عرض کی کہ کیاڈھول طبلہ کو بھی اگرتوڑدیاجائے تواس صورت میں بھی کوئی جرمانہ نہیں ہوگا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ہاں اس صورت میں بھی کوئی جرمانہ نہیں ہوگا۔
(الطرق الحکمیۃ:محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ :۲۲۹)
کیاجوشخص فارغ ہووہ کھیلناشروع کردے؟
عَنِ الْأَعْمَشِ، أَنَّ شُرَیْحًا،مَرَّ عَلَی قَوْمٍ یَلْعَبُونَ یَوْمَ عِیدٍ فَقَالَ:مَا بِہَذَا أُمِرَ الْفَارِغُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام اعمش رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ حضر ت سیدناقاضی شریح رضی اللہ عنہ ایک قوم کے پاس سے گزرے جوعید کے دن کھیل رہے تھے ، آپ نے فرمایاکہ یہ کیاکررہے ہو؟ انہوںنے کہاکہ آج ہم فارغ تھے اس لئے کھیل رہے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کیاجوشخص فارغ ہواسے یہی حکم دیاگیاہے کہ وہ کھیلناشروع کردے۔
(الزہد:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی :۱۷۳)
کھیلناعلماء کاکام نہیں ہے بلکہ جہال کاکام ہے
وَکَانَ لَہُ دَارُ ضِیَافَۃٍ،فِیہَا کُتُبٌ وَشِطْرَنْجٌ، فَالْعُلَمَاء ُ یُطَالِعُونَ الْکُتُبَ،وَالْجُہَّالُ یَلْعَبُونَ بِالشِّطْرَنْجِ.
ترجمہ :امام ابن الاثیررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ شہاب الدین نامی ایک شخص تھاجس نے ایک دارالضیافہ قائم کیاہواتھا، جہاں پرکتابیں بھی موجود تھیں اوروہیں پرشطرنج بھی رکھی ہوئی تھی ، وہاں علماء کرام کتابوں کامطالعہ کیاکرتے تھے اورجاہل لوگ وہاں شطرنج کھیلاکرتے تھے ۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد بن محمد عز الدین ابن الأثیر (۱۰:۲۳۹)
اس سے معلوم ہواکہ علماء کو چاہئے کہ کھیل کود سے دوررہیں تاکہ ان کاعامۃ الناس پر رعب برقراررہے ، لیکن افسوس یہ ہے کہ آجکل مدارس کے اساتذہ اورطلبہ کھیل میں آگے آگے ہوتے ہیں، بعض اوقات طلبہ کو انکے اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھاگیاہے ۔
فاسق معلن کی کوئی عزت نہیں
وقال الإمام أحمد:الناس یحتاجون إِلَی مداراۃ ورفق فی الأمر بالمعروف بلا غلظۃ إلا رجلاً معلنًا بالفسق فإنَّہ لا حرمۃ لہ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاکہ لوگوں کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کو نیکی کاحکم پیارکے ساتھ کیاجائے اورنرمی کے ساتھ سمجھایاجائے سوائے اس شخص کے جو علانیہ فسق میں مبتلاہوکیونکہ اس شخص کو ڈانٹ کراورجھڑک کرسمجھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایسے شخص کی کوئی عزت نہیں ہے ۔
(مجموع رسائل الحافظ ابن رجب الحنبلی:زین الدین عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن(۴:۴۵)
آج گلیوں میں کھڑے ہوئے نوجوان کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں ، جن کو نہ خواتین کی حیاہوتی ہے اورنہ ہی بوڑھے نمازیوں کی حیاہوتی ہے اورایسے اندھادھندکھیلتے ہیں کہ گیندکبھی پردہ دارخواتین کوجاکرلگتی ہے توکبھی نمازیوں کے کپڑے خراب کر دیتی ہے ۔ اوران لڑکوں کو بارہاسمجھایاجائے مگرباز آنے والے نہیں توان کو اگرسرعام جھڑک دیاجائے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔