ادھار والی بیع کی قیمت بعد میں بڑھا دینا کیسا ہے ؟ از علامہ کمال احمد علیمی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بکر کو چھ ہاتھ زمین بعوض تیس ہزار روپئے ہاتھ بیچی ، اور رقم دینے کی کوئی مدت متعین نہیں کی ،بکر نے رقم کا زیادہ حصہ ادا کر دیا تھا اور کچھ رقم باقی بچی تھی، کچھ سال بعد بکر نے اس زمین کو زیادہ قیمت میں بیچ دیا ، اب زید کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ رقم موجودہ قیمت کے حساب سے لیں گے جبکہ زید نے پہلے اس طرح کی کوئی قید نہیں لگائی تھی ۔ ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے شرعا اس کا حکم بیان کرکے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں ۔
عارض:وارث علی خان علیمی مقام و پوسٹ کپتان گنج بستی یوپی
الجواب بعون الملک الوھاب.
جب ایک متعین رقم کے عوض زید نے بکر کو زمین بیچ دی تو اب اس کا بکر سے طے شدہ دام سے زیادہ کا مطالبہ کرنا ہرگز جائز نہیں. فقہ حنفی کی مشہور کتاب "ہدایہ” میں ہے:
"وَإِذَا حَصَلَ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ ثُمَّ الْبَيْعُ وَلَزِمَ، وَلَيْسَ لِوَاحِدٍ مِنْ الْمُتَعَاقِدَيْنِ الْخِيَارُ إلَّا مِنْ عَيْبٍ أَوْ عَدَمِ رُؤْيَةٍ” (الہدایہ، کتاب البیوع)
در مختار میں ہے:
"وحكمه ثبوت الملك.
وفي الرد:(قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن/
(كتاب البيوع، ج:٤، ص:٥٠٦)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وأما حكم البيع .. فهو ثبوت الملك للمشتري في المبيع، وللبائع في الثمن للحال.”
(کتاب البیوع،فصل فی حکم البیع،ج:٥، ص:٢٣٣)
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"بیع کا حکم یہ ہے کہ مشتری مبیع کا مالک ہو جائے اور بائع ثمن کا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بائع پر واجب ہے کہ مبیع کو مشتری کے حوالہ کرے اور مشتری پر واجب کہ بائع کو دیدے۔”(بہار شریعت ح١١ص٦٢٢)
واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی. ٢٤محرم الحرام ١٤٤٥/ ١٢ اگست ٢٠٢٣
التصحیح :محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی.