کونسے مسائل بیان کرنے حرام ہیں ؟
امام اہل سنت ابومنصورالماتریدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
سورۃ فتح کی پہلی آیت کے تحت تحریرفرماتے ہیں
لایجوز لناان نبحث عن ذنبہ ، ونتکلف انہ ماکان ذنبہ ،وایش کانت ذلتہ ۔ لان البحث ممایوجب النقص فیہ ، فمن یتکلف البحث عن ذلک فیخاف علیہ الکفر، لکن ذنبہ وذنب الانبیاء علیہم السلام لیس نظیرذنبنا، اذ ذنبھم بمنزلۃ فعل مباح منالکنھم نھوا عن ذلک ۔ واللہ تعالی اعلم ۔
ترجمہ :ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم اس کے متعلق بحث کریں کہ لفظ ’’ذنب‘‘ کی نسبت رسول اللہ ﷺکی طرف کی گئی ہے اورنہ ہی ہمیں اس تکلف میں پڑناجائز ہے اور نہ ہی اس میں غورکرناجائز ہے کہ رسول اللہ ﷺسے وہ بھول کونسی ہوئی ہے اس لئے اس بحث میں پڑناتوہین کاموجب ہے ،پس جو شخص اس بحث میں پڑے گااس پر کفرکاخوف ہے ۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ لفظ ’’ذنب‘‘ کی نسبت رسول اللہ ﷺکی طرف ہویادوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف ہووہ ہمارے گناہوں کی طرح ہر گزہرگز نہیں ہے ۔کیونکہ لفظ ’’ذنب ‘‘ کی جو نسبت ان کی طرف کی گئی ہے وہ بمنزلہ ’’مباح ‘‘ کے ہے ،اس لئے کہ ان کواس سے بھی منع کیاجاتاہے ۔
(تفسیرالقرآن العظیم فی تاویل اہل السنۃ از امام اہل سنت ابومنصور الماتریدی ( ۴: ۵۱۸)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں
ولیس علیناان نتکلف حفظ ذنوب الانبیاء علیہم السلام وذکرھا۔
ترجمہ :امام اہل سنت ابومنصور الماتریدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں کہ ہم کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف جولفظ ’’ذنب‘‘ کی نسبت کی گئی ہے اسے یادرکھیں یااس کالوگوں کے سامنے ذکرکرتے رہیں ۔
(تفسیرالقرآن العظیم فی تاویل اہل السنۃ از امام اہل سنت ابومنصور الماتریدی ( ۴: ۵۰۶)
سیدی امام عبدالوہاب الشعرانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
وقد حرم المحققون علی الواعظ ذکرشئی من مسمی معصیۃ الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لان ذنوب الانبیاء ا نماھی بالنظرلمقامھم کوقوعھم فی خلاف الاولی واالمباح مثلاً فیسمی مثل ذلک معصیۃ ولیس المراد بمعاصیھم ارتکابھم شئیاً من المحرمات لانھم لواراتکبوا لم یکونوا معصومین وقد ثبت عصمتھم انتہئی فاعلم ذلک ۔
ترجمہ:محققین علماء نے حرام قراردیاہے کہ واعظین انبیاء کرام علیہم السلام کے متعلق معصیت نام کی کسی چیز کاذکرکریں کیونکہ ذنوب انبیاء کرام علیہم السلام کے مقام کے پیش نظرہیں جیسے ان کاخلاف اولی یامباح کاارتکاب کرناہے ،ان کے معاصی سے مراد محرمات میں سے کسی چیز کاارتکاب نہیں کیونکہ اگروہ اس کے مرتکب ہوتے تومعصوم نہ ہوتے جبکہ ان کی عصمت قطعاً ثابت ہے۔
(رسائل ابن عابدین از امام ابن عابدین الشامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۳۰۹)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
فی ”أشعۃ اللمعات”:(درقرآن مجید بآدم نسبت عصیان کردہ وعتاب نمودہ مبنی برعلوشان قرب اوست ومالک رامیرسدکہ برترک اولی وافضل اگرچہ بحد معصیت نرسد بہ بندئہ خود ہرچہ خواہد بگوید وعتاب نماید دیگری رامجال نہ کہ تواندگفت واینجا ادبی ست کہ لازم ست رعایت آن وآن انیست کہ اگر از جانب حضرت بہ بعض انبیا کہ مقربان درگاہ اند عتابی وخطابی رودیا از جانب ایشان کہ بندگان خاص اویند تواضعی وذلتی وانکساری صادر گرددکہ موہم نقص بود مارانبایدکہ دران دخل کینم وبدان تکلم نمائیم۔
ترجمہ:قرآن مجید میں جو حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی طرف عصیاں ونافرمانی کی نسبت کی اور ان پر عتاب فرمایا وہ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے خدا ئے تعالی کے مقرب ہونے اور ان کی بلندی شان پر مبنی ہے اور مالک کو حق پہنچتا ہے کہ اولیٰ وافضل چیز کے ترک کرنے پر اگرچہ وہ معصیت کی حد تک نہ پہنچے اپنے بندے کو جو کچھ چاہے کہے اور عتاب کرے دوسرے کسی کو کچھ بھی کہنے کی مجال نہیں ہے یہ نہایت ادب کا مقام ہے جس کا لحاظ ضروری ہے اور وہ ادب یہ ہے کہ اگر خداوندتعالیٰ کی جانب سے بعض انبیاء علیہم السلام پر جو اس کی درگاہ کے مقرب ہیں عتاب نازل ہو یا ان کی طرف خطا کی نسبت کی گئی ہو یا خود ان انبیاء (علیہم السلام )کی طرف سے جو کہ اس کے خاص بندے ہیں تواضع ،عاجزی وانکساری کی بات صادر ہو جس سے ان میں نقص وعیب کا وہم پڑتا ہو ، تو ہم بندوں کو اس میں دخل دینے یا اسے زبان پر لانے کی ہرگز اجازت نہیں۔
(أشعۃ اللمعات از شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ، کتاب الإیمان، الفصل الأول(۱: ۴۳)
امام ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
انہ لایقال عصی آدم ربہ الافی القرآن ۔
ترجمہ :’’عصی آدم ربہ ‘‘ سوائے تلاوت قرآن کے کہناجائز نہیں ہے ۔
(رسائل ابن عابدین از امام ابن عابدین الشامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۳۰۹)
امام اہلسنت امام احمدرضاخان حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
غیر تلاوت میں اپنی طرف سے سید نا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف نافرمانی وگناہ کی نسبت حرام ہے۔ ائمہ دین نے اس کی تصریح فرمائی بلکہ ایک جماعت علمائے کرام نے اسے کفر بتایا، مولیٰ کو شایان ہے کہ اپنے محبوب بندوں کو جس عبارت سے تعبیر فرمائے ، دوسرا کہے تو اس کی زبان گُدّی کے پیچھے سے کھینچی جائے {للہ المثل الأعلی}، بلا تشبیہ یوں خیال کرو کہ زید نے اپنے بیٹے عمرو کو اس کی کسی لغزش یا بھول پر متنبہ کرنے ،ادب دینے، حزم وعزم واحتیاط سکھانے کے لئے مثلاً بیہودہ نالائق احمق وغیرہا الفاظ سے تعبیر کیا ،باپ کو اس کا اختیار تھا ،اب کیا عمرو کا بیٹا بکر یا غلام ِخالد انہیں الفاظ کو سند بنا کر اپنے باپ اور آقا عمرو کو یہ الفاظ کہہ سکتا ہے؟ حاشا اگر کہے گا سخت گستاخ ومردود ،مستحق ِعذاب وتعزیر وسزا ہوگا، جب یہاں یہ حالت ہے تو اللہ عزوجل کی ریس کرکے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی شان میں ایسے لفظ کا بکنے والا کیونکر سخت شدید ومدید عذابِ جہنم وغضب الٰہی کا مستحق نہ ہوگا والعیاذ باللہ تعالیٰ۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاخان حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۱: ۸۲۳ ،۸۲۴)
امام ابو عبداللہ قرطبی فرماتے ہیں
قولہ تعالیٰ:(وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ)قـال القاضی أبو بکر بن العربی رحمہ اللہ تعالی:(لا یجوز لأحد منّا الیوم أن یخبر بذلک عن آدم علیہ الصّلاۃ والسّلام إلاّ إذا ذکرناہ فی أثناء قولہ تعالی عنہ أو قول نبیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، فأمّا أن نبتدیء ذلک من قبل أنفسنا فلیس بجائز لنا فی آبائنا الأدَنین إلینا المماثلین لنا فکیف بأبینا الأقدم الأعظم الأکبر النبی المقدم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وعلی جمیع الأنبیاء والمرسلین۔
ترجمہ :امام قاضی ابوبکرابن العربی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ ہم آج حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے متعلق خبریں دیناشروع کردیں سوائے اس کے کہ جب قرآن کریم کی تلاوت کریں یاپھررسول اللہ ﷺکی حدیث شریف پڑھیں ۔ہمارے آباواجداد کے متعلق جب باتیں کرناجائز نہیں ہے تو پھروہ ہمارے اقدم ،اعظم ، اکبربا پ اورنبی ہیں ﷺ وعلی جمیع الأنبیاء والمرسلین۔ان کے متعلق باتیں کرناکیسے جائز ہوسکتاہے ؟
(الجامع لأحکام القرآن لامام قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (۶: ۱۳۷)
امام ابن الحاج رحمۃ اللہ تعالی علیہ المتوفی ۷۳۷ھ) لکھتے ہیں
قد قال علماؤنا رحمہم اللہ تعالی: أنّ من قال عن نبی من الأنبیاء علیھم الصّلاۃ والسلام فی غیر التلاوۃ والحدیث:أنّہ عصی أو خالف فقد کفر، نعوذ باللہ من ذلک۔
ترجمہ :ہمارے علماء کرام نے لکھاہے کہ جس شخص نے تلاوت قرآن اورحدیث شریف کی قراء ت کے علاوہ اللہ تعالی کے نبیوں میں سے کسی بھی نبی علیہ السلام کے بارے میں یہ کہاکہ انہوںنے معصیت کی یااللہ تعالی کے حکم کی مخالفت کی توکافرہوجائے گا۔
(المدخل:أبو عبد اللہ محمد بن محمد بن محمد العبدری الفاسی المالکی الشہیر بابن الحاج ( ۱: ۲۳۷)
ایسے امور میں سخت احتیاط فرض ہے اللہ تعالی اپنے محبوبوں کا حسن ِادب عطا فرمائے ۔ آمین.
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاخان حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۱: ۸۲۳ ،۸۲۴)
صدرالشریعۃ مولاناامجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے جو لغزشیں واقع ہوئیں، انکا ذکر تلاوتِ قرآن و روایتِ حدیث کے سوا حرام اور سخت حرام ہے، اوروں کو اُن سرکاروں میں لب کشائی کی کیا مجال!مولیٰ عزوجل اُن کا مالک ہے، جس محل پر جس طرح چاہے تعبیر فرمائے، وہ اُس کے پیارے بندے ہیں، اپنے رب کے لیے جس قدرچاہیں تواضع فرمائیں، دوسرا اُن کلمات کو سند نہیں بناسکتا اور خود اُن کا اطلاق کرے تو مردودِ بارگاہ ہو، پھر اُنکے یہ افعال جن کو زَلَّت و لغزش سے تعبیر کیا جائے،ہزارہا حِکَم و مَصالح پر مبنی، ہزارہا فوائد و برکات کی مُثمِر ہوتی ہیں، ایک لغزشِ اَبِیْنَا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھئے، اگر وہ نہ ہوتی، جنت سے نہ اترتے، دنیا آباد نہ ہوتی، نہ کتابیں اُترتیں، نہ رسول آتے، نہ جہاد ہوتے، لاکھوں کروڑوں مثُوبات کے دروازے بند رہتے، اُن سب کا فتحِ باب ایک لغزشِ آدم کا نتیجہ مبارکہ و ثمرہ طیّبہ ہے۔ بالجملہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی لغزش، مَن و تُو کس شمار میں ہیں، صدیقین کی حَسَنَات سے افضل و اعلیٰ ہے۔(حَسَنَاتُ الأبْرَارِ سَیّاٰتُ الْمُقَرَّبِیْنَ)
ترجمہ:نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے لیے خطاؤں کا درجہ رکھتی ہیں
(بہارشریعت از مولانامفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (۱: ۸۸)
قرآن کریم کو اگرکوئی توہین کی نیت سے پڑھے تو؟۔۔۔۔
روی ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ بلغہ ان بعض المنافقین یؤم قومہ فلا یقرأ فیہم الا سورۃ عبس فارسل الیہ فضرب عنقہ لما استدل بذلک علی کفرہ ووضع مرتبتہ عندہ وعند قومہ۔
ترجمہ :اس ظاہری عتاب کی کیفیت کی وجہ سے حضرت سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک منافق امام مسجد کی گردن اڑادی جب آپ رضی اللہ عنہ کومعلوم ہواکہ وہ اپنی امامت میں قراء ت میں صرف سورۃ عبس ہی پڑھتاہے ۔
صرف اس بات پر حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس امام مسجد کے کفرکااستدلال کیااور قوم کے سامنے اس کی اوقات واضح کردی اوریہ بھی بتادیاکہ رسول اللہ ﷺکے گستاخ کاانجام یہی ہوتاہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱۰:۳۳۱)
اس سے معلوم ہواکہ حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نزدیک وہ آیات جن سے عتاب ظاہرہوتاہے ان آیات کو بھی توہین کی نیت سے پڑھناجرم ہے ۔ توپھران مسائل کو لوگوں میں بیان کرتے رہنااورعوام الناس کاذہن خراب کرناکیسے جائز ہوسکتاہے۔