سیاہ خضاب لگانا ؟اور سیاہ خضاب لگانے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیساہے ؟

Kalq Khizab Lagana Aur Lagane Wale Ke Peeche Namaz Padhna Kaisa Hai ?

الاستفتا :سیاہ خضاب لگانا ؟اور سیاہ خضاب لگانے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیساہے ؟۔
المستفتی: حافظ عبدالرشید سمبل پور اڑیسہ
19/جمادی الاولیٰ 1445ھ بروز
سوموار

باسمہ تعالیٰ جل و علا

الجواب اللھم ھدایت الحق و الصواب

سیاہ خضاب لگانا خواہ سر ہو یا داڑھی کے بال دونوں میں سخت ناجائز و حرام اور گناہ ہے، کتب احادیث میں اسکے متعلق شدید وعید و تہدید وارد ہے۔ بعض جاہل کہتے ہیں سر میں لگاسکتے ہیں داڑھی میں نہیں، اور کچھ یہ کہتے کہ داڑھی میں لگا سکتے سر میں نہیں، بعض سمجھتے ہیں عورت لگا سکتی ہے مرد نہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر صحیح یہی ہے کہ حکم سب میں یکساں ہے ۔ احادیث میں آیا ہوا ہے نبی کریم علیہ الصلاة و التسلیم نے فرمایا:” غیرو ھذا بشی و اجتنبوا السواد،، یعنی اس سفیدی کو بدل دو اور سیاہی کے قریب نہ جاؤ۔ (مسلم شریف، ج2، ص199)
مجمع الزوائد میں ہے:” من خضب بالسواد سواد اللہ وجھہ یوم القیامة،، جس نے کالا خضاب لگایا قیامت کے دن اللہ عزوجل اسکا چہرہ فرمائیگا۔ ( الجزء الخامس، ص163)
سنن ابوداؤد و المستدرک للحاکم میں ہے:” یکون قوم یخضبون فی آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام لایرحون رائحة الجنة،، آخر زمانے میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب کریں گے جیسے کبوتر کے پوٹے یہ لوگ جنت کی خوشبو نہیں پائیں گے۔ ( ابوداؤد، ص222- المستدرک للحاکم، ج3، ص526)
حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مذکورہ حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں:” اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ سیاہ خضاب حرام ہے، خواہ سر میں لگائے یا داڑھی میں ، مرد لگائے یا عورت، اس سے معذوری کی حالت مستثنیٰ ہے، علاج کے لیے، یا غزوہ کے لیے سیاہ خضاب جائز ہے، بعض لوگ مطلقاً سیاہ خضاب جائز کہتے ہیں، بعض لوگ عورتوں کے لیے جائز کہتے ہیں، بعض مردوں کے سر کے لیے جائز کہتے ہیں، داڑھی کے لیے ممنوع مانتے ہیں، بعض لوگ مکروہ تنزیہی کہتے ہیں، یہ کل ضعیف ہیں، صحیح وہ ہی ہے کہ
سیاہ خضاب مطلقاً مکروہ تحریمی ہے ۔ مرد و عورت سر داڑھی سب اسی ممانعت میں داخل ہیں،، ۔(مرأۃالمناجیح، ج6، ص140)
درمختارمیں ہے:” ویکرہ بالسواد ای لغیرالحرب ،، (ج5، ص605)
یہاں جہاد سے مراد حرب یعنی جنگ ہے اس لئے "درمختار "میں "لغیرالحرب” فرمایا اور ظاہرہے کہ کسب مال یاامامت جنگ یاحرب نہیں اور جنگ میں کالا خضاب لگانے کی اجازت اس لئے ہے کہ دشمن مجاہد کی کالی داڑھی دیکھ کر جوان خیال کرکے محزون و مرعوب اور خوفزدہ ہو۔
اسی کے تحت”ردالمحتار”میں ہے:
"قال فی الذخیرۃ اماالخضاب للغز ولیکون اھیب فی عین العدو فھومحمودبالاتفاق” (المرجع السابق)
امام اہلسنت حضور سیدی سرکار اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:” سیاہ خضاب سواہ کسی کا بھی ہو سوا مجاہدین کیلٸے سب کو مطلقاً حرام ہے اور صرف مہندی کا سرخ خضاب یا اس میں نیل کی کچھ پتیاں اتنی ملا کر کہ جس سے سرخی پختگی آ جاٸے اور رنگ سیاہ ہونے نہ پاٸے سنت مستحبہ ہے،،۔
( فتاوی رضویہ، ج23، ص484 مکتبہ رضا فاٶنڈیشن لاہور )
اور تحریر فرماتے ہیں:” حدیث شریف میں سیاہ خضاب سے مطلقاً منع کیا گیا تو جو چیز بالوں کو سیاہ کرے خواہ نیل یا مہندی کا میل یا کوئ تیل غرضیکہ کچھ ہو سب ناجائز وحرام ہیں،،۔
(فتاویٰ رضویہ، ج9، ص32)
اور مزید فرماتے ہیں:” شاہر عدل ہے کہ عورت اس کی زیادہ محتاج ہے، کہ شوہر کی نگاہ میں آراستہ ہو جب اسے یہ امور تغیر خلق اللہ کے سبب حرام و موجب لعنت ہے، تو مرد پر بدرجۂ اولیٰ،،۔
(فتاویٰ رضویہ ج9ص192)

فتاویٰ بریلی شریف ص68 پر ہے :” سیاہ خضاب یا ایسی مہندی جس سے بال کالے ہو جائیں لگانا جائز نہیں ہے، سیاہ خضاب جہاد کے سوا مطلقاً حرام ہے،،-
بہار شریعت میں ہے:” مرد کو داڑھی اور سر وغیرہ کے بالوں میں خضاب لگانا جائز بلکہ مستحب ہے، مگر سیاہ خضاب لگانا منع ہے، ہاں مجاہد کو سیاہ خضاب بھی جائز ہے کہ دشمن کی نظر میں اس کی وجہ سے ہیبت بیٹھے گی،،(حصہ16،ص597)
لہذا وہ امام جو سیاہ خضاب لگائے وہ فاسق معلن ہے اسے امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز پڑھنی مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے جو نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئیں ان کا دوبارہ پڑھناواجب ہے۔
درمختارمیں ہے:” کل صلاۃ ادیت مع کراھۃ تحریم تجب اعادتھا”۔
(ج1، ص307)
غنیۃ المستملی میں ہے:” لوقدموافاسقا یاثمون بناءعلی ان کراھۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم”۔ (ص513)
واللہ تعالیٰ و رسولہ الاعلیٰ اعلم و اتم بالصواب
کتبہ: عاصی محمد امیرحسن امجدی رضوی قادری’ خادم الافتا و التدریس: الجامعة الصابریہ الرضویہ پریم نگر نگرہ جھانسی یوپی

Leave a Reply