حربی کافر سے سود لینا کیسا ہے؟از محمد ارشاد رضا علیمی

حربی کافر سے سود لینا کیسا ہے؟از محمد ارشاد رضا علیمی

کیا حربی کافر سے سود لینا درست ہے؟

المستفتی:- محمد داؤد علیمی پرتاب گڑھ، راجستھان

الجواب بعون الملك الوهاب:-

ہمارے ملک ہندوستان کے کفار حربی ہیں مسلمان اور حربی کے درمیان رضامندی سے معاملات میں اگر نفع مسلم کو ملے تو یہ سود نہیں ہوتا ہے لہذا حربی کافر کو قرض دیکر مالِ مباح سمجھ کر زیادہ رقم لینا جائز ہے۔ اور یہ سود نہیں ہاں اگر کوئی سود سمجھ کر لے گا تو ناجائز ہے-
فتح القدیر میں ہے”ولنا قوله عليه الصلاة والسلام(لاربا بين المسلم والحربي في دار الحرب)”ولأن مالهم غير معصوم فباى طريق أخذه المسلم أخذ مالا مباحا مالم يكن غدرا”(ج ۷ ص ۳۹/ کتاب البیوع/دار الکتب العلمیه،بیروت،لبنان) اعلی حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: ” اگر قرض دیا اور زیادہ لینا قرار پایا تو مسلمان سے حرام قطعی اور ہندو سے جائز جبکہ اسے سود سمجھ کر نہ لے”( فتاوی رضویہ مترجم ج ۱۷ ص ۳۲۷، مطبوعہ، مرکز اہلسنت برکات رضا پور بندر گجرات)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
” ہاں ! اگر وہ جس شخص نے یہ روپیہ امانتاً لیا اور اس پر پانچ روپے ماہوار دینا مقرر کیا ہندو وغیراقوام سے ہو تو یہ سو روپیہ زائد اس کے قرار داد سے ملتے ہیں ایک مال مباح سمجھ کر لینا جائز ہے سود سمجھ کرلینا حرام۔”
(فتاوی رضویہ مترجم ج ۱۷ ص ۳۲۷، مطبوعہ، مرکز اہلسنت برکات رضا پور بندر گجرات)

والله تعالى أعلم بالصواب

کتبہ:- محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ مقیم حال بالیسر اڑیسہ ۲۵/ رمضان المبارک مطابق ۱۷/اپریل

الجواب صحيح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

Leave a Reply