مسلمان کا کافر کو خون دینا یا لینا کیسا؟ 

مسلمان کا کافر کو خون دینا یا لینا کیسا؟

 سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے کہ کسی کافر کو خون دینا یا اس سے لینا کیسا ہے؟
سائل : محمد سلمان اشرف پونہ

الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورت مسؤلہ میں چند صورتیں مندرجہ ذیل ہیں ـ

(1) مریض کی جان بچانے کیلئے

(2) اعضا کو بیکار ہونے سے بچانے کیلئے

(3) جمال مقصود کے تحفظ؛ چشم کی حفاظت؛ یا کسی اور عضو کی حفاظت کے لئے بشرطیکہ کسی اور جائز ذریعہ سے اس کا تحفظ نہ ہو سکے؛ لہذا جمال غیر مقصود تحفظ کیلئے اجازت نہیں ــ

( الف)  خون نہ چڑھانے سے جب مریض کو زیادہ دنوں تک مرض کی تکلیف ہو؛ اگر یہ نا قابل برداشت حد تک ہو تو خون چڑھانا جائز ہے؛ ورنہ نہیں ــ

( ب ) خون کی کمی کے باعث انسیجنل ھرنیا ہونے کا خطرہ ہو تو بھی جائز ہے ــ جیسا کہ آپریشن کے بعد خون کی کمی سے ایسا ہو جاتا ہے ــ

(4) درج ذیل دوسری تیسری صورتوں میں خون چڑھانے کی اجازت ہے؛ پہلی صورت میں نہیں؛ وہ صورتیں یہ ہیں ـ

( الف )  مریض ٹھیک ہے ؛ کوئی گبھراہٹ یا تناؤ نہیں ہے؛  خون کی کمی %۱۵؛ پندرہ سے کم ہے

( ب ) ہلکا تناؤ؛  بے چینی؛  پیلاپن؛  بدن ٹھنڈا ہوجانا؛  پسینہ؛  پیاس؛ کھڑے ہونے سے اس طرح بے ہوشی طاری ہونا کہ گرجائے؛  خون کی کمی ایک سے دو لیٹر یعنی %۲۰ سے %۳۹

( ج ) بہت زیادہ تناؤ؛  ہوش و حواس میں اختلال؛  شدید تنفس؛  یعنی تیز اور گہری سانس چلنا؛  ہاتھ پیر کا برف کی مانند ٹھنڈا ہوجانا؛ بہت زیادہ پیاس؛ خون کی کمی دو سے ساڑے تین لیٹر یعنی %۴۰ سے %۷۰؛ پیشاب کی مقدار صفر.

خون نہ چڑھانے کے باعث عضو کے بیکار ہوجانے کا ظن غالب ہو تو بھی خون چڑھانے کی ان تمام صورتوں میں اجازت بس اسی مقدار میں خون چڑھانے کی ہے جتنے سے کام چل سکے ـ

بہر کیف مجلس شرعی کے فیصلے کے چھٹے سیمنار میں طے ہوا کہ مریض کو جب خون چڑھانے کی ضرورت یا حاجت ہو تو اس کیلئے خون چڑھانا جائز ہو جاتا ہے ــ

لیکن کوئی شخص اگر اسے خون دیتا ہے تو دینا جائز ہے یا نہیں؛ اگر دینا جائز ہوتو دینے والے کے حق میں ضرورت یا حاجت کیا ہے؟

بہرحال؛ اس کے جواب میں یہ کہا گیا کہ فتاوی رضویہ جلد 10 نصف آخر صفحہ 200 میں ہے کہ دوسرے مسلم کی ضرورت کا بھی اعتبار ہے؛ جیسے ڈوبتے کو بچانے کیلئے نماز پڑھنے والے کو نماز توڑنا واجب ہو جاتا ہے؛  اس لئے جب کسی مسلم کو ضرورت یا حاجت در پیش ہے تو دوسرے شخص کیلئے جائز ہے کہ اپنا خون اسے بچانے کیلئے دے دے؛ جزء انسان سے وقت ضرورت و حاجت انتفاع کا جواز ہوجاتا یے ۔

جیسا کہ شامی میں ہے

قال فی الفتح؛  واھل الطب یثبتون للبن البنت ای الذی نزل بسبب بنت مرضعۃ نفعا لوجع العین؛ واختلف المشائخ فیہ؛  قیل:  لا یجوز؛  وقیل یجوز؛  اذا اعلم انه یزول به الرمد؛  وپا یخفی ان حقیقۃ العلم متعذرۃ؛  فالمراد اذا غلب علی الظن و الا فھو معنی المنع ھ۱

مبسوط سرخی میں ہے ، ولاباس بان یستعط الرجل بلبن المرأۃ و یشربه؛  لانه موضع الحاجۃ والضرورۃ  ھ۱

البتہ؛ مریض کو حاجت و ضرورت کی حالت میں خون اگر بلا عوض نہیں ملتا تو بعوض خریدنا جائز ہے مگر بائع کیلئے خون کا ثمن طیب نہیں؛  مسلم مریض کو مذکورہ حالت میں مسلم یا غیر مسلم کسی سے بھی خون لینا یا خریدنا جائز ہے.

( مجلس شرعی کے فیصلے صفحہ 195/196)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

کتبــــــہ : مفتی محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں

Leave a Reply