کبوتر پالنا کیساہے ؟
السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ کیا کم کبوتر پال سکتے ہیں اور کبوتر پالنا شریعت میں کیسا ہے?حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی:- عبدالسبحان رضا خان حنفی بریلوی گورکھپوری
_____________
وعلیکم الســـــلام ورحمة اللّہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھابـــــــــ
کبوتر پالنا جائز ہے جبکہ خالی دل بہلانے کے لئے ہو,اور اڑانے کے لیے نہ ہو, اگر اڑانے کے لیے پالتا ہے تو ناجائز ہے جیساکہ فتاویٰ رضویہ شریف میں سرکار حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں۔کبوتر پالنا جبکہ خالی دل بہلانے کے لئے ہو اور کسی امرناجائز کی طرف مؤدی نہ ہو جائزہے اور اگرچھتوں پرچڑھ کراڑائے کہ مسلمانوں کی عورات پرنگاہ پڑے یا ان کے اڑانے کوکنکریاں پھیکنے جوکسی کاشیشہ توڑیں یاکسی کی آنکھ پھوڑیں یاکسی کادم بڑھائے اورتماشا ہونے کے لئے دن بھر انہیں بھوکا اُڑائے جب اُترنا چاہیں نہ اُترنے دیں ایساپالنا حرام ہے ۔
درمختارمیں ہے:یکرہ امساك الحمامات ولو فی برجھا ان کان یضربا لناس بنظر او جلب والاحتیاط ان یتصدق بھا ثم یشتریھا اوتوھب بلہ،مجتبی،فان کان یطیرھا فوق السطح مطلعًا علی عورات المسلمین و یکسر زجاجات الناس برمیہ تلك الحمامات عزر ومنع اشدالمنع فان لم یمتنع ذبحھا المحتسب وصرح فی الوھبانیۃ بوجوب التعزیر وذبح الحمامات ولم یقیدہ بما مر ولعلہ اعتمد عادتھم واما للاستیناس فمباح اھ۔
(درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۴۹)
کبوتروں کوروك رکھنا اگرچہ ان کے برجوں میں ہو مکروہ ہے اگرلوگوں کونقصان پہنچاہودیکھنے یا پکڑنے کی وجہ سے،اور احتیاط یہ ہے کہ انہیں خیرات کردیاجائے پھرانہیں خریدے یا اسے ہبہ کئے جائیں،مجتبٰی،پھراگرچھتوں پرچڑھ کر اڑانے کہ مسلمانوں کی پردہ دار خواتین پرنگاہ پڑے یا انہیں اڑانے کے لئے کنکرپھینکنے جن سے لوگوں کے گھروں کی کھڑکیوں روشندانوں کے شیشے ٹوٹنے کی نوبت آئے تو یہ سخت منع ہے اور اگر اس حرکت سے بازنہ آئے توحاکم شہر انہیں ذبح کراڈالے۔ اور وہبانیہ میں تصریح ہے کہ اس صورت میں سزادینا اور کبوتروں کو ذبح کرڈالنا واجب ہے اور اس نے گزشتہ قید کا ذکرنہیں کیا شاید اس نے فقہائے کرام کی عادت پراعتمادکیاہے اور اگرکبوترپروری صرف دل بہلانے اور انس کے لئے ہوتو مباح ہےاھ(ت)
(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ج ۲۴ ص ۶۶۳ مکتبۃ المدینہ)
اور بہار شریعت میں حضور صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں :کہ” کبوتر پالنا اگر اڑانے کے لیے نہ ہو تو جائز ہے اور اگر کبوتروں کو اڑاتا ہے تو ناجائز کہ یہ بھی ایک قسم کا لہو ہے یا اگر کبوتر اڑانے کے لیے چھت پر چڑھتا ہے جس سے لوگوں کی بے پردگی ہوتی ہے یا اڑانے میں کنکریاں پھینکتاہے جن سے لوگوں کے برتن ٹوٹنے کا اندیشہ ہے، تو اس کو سختی سے منع کیا جائے گا اور سزا دی جائے اگر وہ اس پر بھی نہ مانے تو حکومت کی جانب سے اس کے کبوتر کو ذبح کرکے اسی کو دے دئے جائیں تاکہ اڑانے کا سلسلہ ہی منقطع ہوجائے ۔
(بہارشریعت ج ۳. ح ۱۶ . ص ۵۱۲ لہولعب کابیان مجلس المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی)
والله تعالی اعلم باالصواب
کتبــــــــــــــــــــــــہ
اسیر حضور تاج الشریعـہ
محمــــــــد نورجمال رضــوی دینـــاجپـــوری۔
مؤرخہ:(۲۵) ذوالقعدۃ ۲٤٤١ھ بروز؛ بدھ