جوا کھیلنے والوں اورڈھول بجانے والوں سے جرمانہ لینا کیسا ہے؟
مفتی محمد ارشد حسین الفیضی۔
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہمارے گاوں میں جوا اور تاش کھیلنے اور شادی بیاہ میں ڈھول تاشہ بجوانے پر پابندی عائد ہے اور اس کے خلاف کرنے والے پر گاوں کے کچھ معززین نے متفہ طور پر جرمانہ عائد کیا ہے کہ اگر کوئ جوا تاش کھیلتے ہوۓ پکڑاگیا یا شادی وغیرہ میں ڈھول تاشہ بجوایا تو اسے ایک ہزار روپیہ جرمانہ اداکرنا پڑے گا نیز پورے گاوں کے سامنے معافی بھی مانگنی پڑے گی۔
اور یہ قانون لگے تقریباً تین سال ہوگۓ اس بیچ کافی لوگوں سے جرمانہ اصول کیا گیا جو تقریباً چالیس ہزار روپیے ہوگۓ ہیں ۔
آیا ایسی صورت میں اب جوۓ کا اصول کیا گیا جرمانہ مدرسہ میں یا مسجد کے ٹوائلیٹ بنوانے میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں ۔اگر نہیں تو پھر اس کا استعمال کن امور میں کیا جاسکتا ہے؟
اور ڈھول تاشہ بجوانے یا جوا تاش کھیلنے پر جرمانہ اصول کرنا کیا شرعا جائزہے؟
المستفتی:محمد حذیفہ علوی سدھارتھ
نگر یو، پی
بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
مالی جرمانہ یعنی مجرم کا کچھ مال خطا کے عوض لے لینا شرعا جائز نہیں امام احمد رضا خان قدس سرہ فرماتے ہیں”جرمانہ کے ساتھ تعزیر کہ مجرم کا کچھ مال خطا کے عوض لے لیا جائے منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں کما حققہ الامام الطحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ والمسئلۃ فی الدرالمختار وقد بیناھا علی ھامش ردالمحتار”اھ(ج٥ص٩٣٥،کتاب الامام، باب المتفرقات)
ہاں اگر دیکھے کہ بغیر لیے ان افعال قبیحہ سے باز نہ آئے گا تو وصول کرلے پھر جب اس کام سے توبہ کرلے واپس دیدے.
بہار شریعت میں بحر الرائق سے ہے” تعزیر بالمال یعنی جرمانہ لینا جائز نہیں ہاں اگر دیکھے کہ بغیر لیے باز نہ آئے گا تو وصول کرلے پھر جب اس کام سے توبہ کرلے واپس دیدے”اھ(ح٩ص٤٠٥،تعزیر کا بیان، مکتبۃ المدینہ)
لہذا اگر خطا کاروں نے اپنی خطاؤں سے توبہ کرلیا ہو اور توبہ پر قائم ہوں تو پابندی عائد کرنے والے گاؤں کے معززین پر لازم ہے کہ انہیں جرمانے کی رقم واپس کریں.
فتاویٰ فیض الرسول میں ہے”رقم مذکور سے شامیانہ وغیرہ بنوانا یا مسجد کی ضروریات میں اسے صرف کرنا جائز نہیں بلکہ صاحب حد توبہ کرنے کے بعد توبہ پر قائم رہے تو اس کی رقم اسے واپس دیدیجائے.
البتہ اگر جرمانہ پنچائتی دباؤ ڈال کر جبر واکراہ سے نہ وصولا جاتا ہو بلکہ خطا کار اپنی رضا سے دیتے ہوں کہ اگر نہ دیں تو ان پر کوئی جبر وتعدی نہ ہو یا اس سے ان کا کوئی ضرر نہ ہو تو پھر یہ قانون وپابندی جرمانۂ ناجائزہ کی حد تک نہیں پہونچے گا اسے کسی بھی کار خیر میں صرف کرسکتے ہیں.
اسے بھی پڑھیں
جوا تاش کھیلنے والوں سے جرمانہ وصول کرنا اور اسے مسجد یا مدرسہ یا اس کے ٹوائلیٹ میں لگانا کیسا ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے”صورت مذکورہ میں وہ جرمانہ انجمن والوں نے اپنے لیے لینا نہ قرار دیا بلکہ کسی کار خیر میں اس کا مصرف کرنا بتایا ہے اور اس کے لینے میں انجمن کی طرف سے کوئی جبر واکراہ نہیں صرف اتنا قاعدہ قرار دیا ہے کہ جرمانہ نہ دے انجمن سے خارج کیا جائے تو انجمن میں داخل رہنے کے لیے جو شخص یہ رقم ادا کرے گا بجبر وتعدی نہ ہوگا بلکہ اس کی اپنی رضا سے ہوگا کہ انجمن سے خارج ہونے میں اس کا کوئی ضرر نہ تھا اس نے اختیار خود اسے پسند کیا کہ اس سے لیکر کار خیر میں صرف ہو لہذا یہ قانون جرمانہ ناجائزہ کی حد تک نہیں پہنچتا”اھ(ج٥ص٩٣٦، کتاب الایمان باب المتفرقات) وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب.
اسے بھی پڑھیں
کیا دور حاضر میں مالی تعزیر ڈالنا جائز ہے؟
کتبہ:محمد ارشد حسین الفیضی
١٧رمضان المبارک ١٤٤٤ھ