فحش گوئی کرنا کیسا ہے؟ جوا کھیلنا کیسا ہے؟

فحش گوئی کرنا کیسا ہے؟ جوا کھیلنا کیسا ہے؟

فحش گوئی کرنا کیسا ہے؟ جوا کھیلنا کیسا ہے؟ قرآن مجید کی جھوٹی قسم کھانا کیسا ہے؟اہل بیت اطہار کو گالی گلوچ کرنے والے کا حکم کیا ہے؟مسجد میں روپیہ پیسہ دیکر واپس مانگنے اور مسجد کے بارے میں بیہودہ الفاظ استعمال کرنے والے کا کیا حکم ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص جس کا نام عبد الغنی ابن احمد جو ہے وہ ان نمبر شمار امور قبیحہ کا ارتکاب کرتا ہے۔(۱) فحش گوئی کرتا ہے مثلاً میری بچیوں سے کہتا ہے کہ تم دن میں کسی کے پاس جاؤ اور رات میں میرے پاس آنا۔(۲) وہ شخص جوا کھیلتا ہے(۳) قرآن مجید کی جھوٹی قسم کھاتا ہے (۴) اہل بیت اطہار کو گالی گلوچ کرتا ہے(۵) مسجد میں دیا ہوا روپیہ پیسہ واپس مانگتا ہے اور مسجد کے بارے میں بیہودہ الفاظ استعمال کرتا ہے۔لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں:۔

المستفتی:۔ محمد جاوید ابنِ محمد حسین ساکن چنی شاہ آباد تحصیل سیوٹ ضلع راجوری

بتاریخ:۔٢٥/جولائی ٢٠٢٣ء بروز منگل

 الجواب بعون الملک الوھاب:۔

(۱)فحش گوئی کرنا یہ مسلمان کا کام نہیں بلکہ منافق کا کام ہے عبد الغنی نے آپکی بچیوں کے لیے جو نازیبا الفاظ استعمال کیے ہیں سخت قابلِ مذمت ہیں، اس پر لازم و ضروری ہے کہ جن کو نازیبا الفاظ بولا ہے ان سے معافی مانگے۔

ارشاد باری تعالی ہے:
"وَالَّذِيْن يؤذون المؤمنين والمؤمِنت بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا: ( پاره ۲۲، آیت ۵۸ سورة الأحزاب )

ترجمہ: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سرلیا "( کنز الایمان )

حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: ” یہ آیت ان منافقین کے حق میں نازل ہوئی جو حضرت علی مرتضی رضی الله تعالیٰ عنہ کو ایذا دیتے تھے اور ان کے حق میں بدگوئی کرتے تھے حضرت فضیل نے فرمایا کہ کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے (تفسیر خزائن العرفان مع کنز الایمان)

حضورصلی الله تعالٰی علیه وسلم کا ارشاد مبارک ہے: "من أذى مسلما فقد أذاني ومن أذاني فقد أذى الله”
جس نے کسی مسلمان کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی تو اس نے الله رب العزت کو اذیت دی۔(المعجم الاوسط للطبرانی ص٦١/المکتبة الشیعیة)

صحيح بخارى میں ہے: عن عبد الله بن عمرو، ان النبی صلی الله عليه وسلم قال:”اربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق، حتى يدعها إذا أؤتمن خان وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر "(صحيح البخاري/كتاب الإيمان/باب علامة المنافق/ رقم الحديث:٣٤)حضرت عبد الله بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے نبی صلے اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا جس میں یہ چاروں باتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جائے گی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے جب اس کے پاس امانت رکھی جائےخیانت کرے جب بات کرے جھوٹ بولے جب عہد کرے تو دغا کرے جب جھگڑا کرے تو گالی دے۔
حدیث مبارک ہے: "سباب المسلم فسوق (صحیح مسلم کتاب الایمان / رقم الحدیث:٩٦) یعنی مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے۔ ایک اور جگہ ہے: "سباب المسلم كالمشرف على الهلكة ” (شرح أصول الکافی ج ١ ص ۱۵/ المكتبة الشیعیة ) یعنی مسلمان کو گالی دینے والا اس شخص کی مانند ہے جو عنقریب ہلاکت میں پڑنے والا ہے۔ ایک اور مقام پر ہے: "ليس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولاالبذيء ” ( سنن الترمذي/ أبواب البر والصلة باب ما جاء في اللعنة/ رقم الحدیث ۱۹۷۷) یعنی مومن طعنہ دینے والا لعنت کرنے والا فحش گو اور بد زبان نہیں ہوتا۔ والله تعالى اعلم

(۲) جوا کھیلنا حرام ہے اور یہ شیطان کا کام ہے مسلمانوں کو ایسے گھٹیا کاموں سے بچنا ضروری ہے، عبد الغنی سخت فاسق وفاجر گناہ کبیرہ کا مرتکب مستحق غضب جبار وعذاب نار ہے، اس پر لازم ہے کہ الله رب العزت کی بارگاہ میں توبہ صادقہ کرے اور آئندہ ایسے برے کاموں سے اجتناب کرے۔

فرمان باری تعالی ہے۔
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔(پارہ ٧ آیت: ٩٠،سورة المائدۃ)

ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔

احادیث میں جوئے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ جوئے کے ایک کھیل کے بارے میں حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے نرد شیر (جوئے کا ایک کھیل) کھیلا تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔( مسلم، کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر، ص۱۲۴۰، الحدیث: ۱۰(۲۲۶۰))

حضرت ابوعبد الرحمٰن خطمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص نرد کھیلتا ہے پھر نماز پڑھنے اٹھتا ہے، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیپ اور سوئر کے خون سے وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے۔(مسند امام احمد، احادیث رجال من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۹ / ۵۰، الحدیث: ۲۳۱۹۹”( تفسیر صراط الجنان ج٧)والله تعالى اعلم

(۳) قرآن مجید کی جھوٹی قسم کھانا ناجائز وگناہ ہے عبد الغنی پر لازم ہے کہ صدق دل سے بارگاہ رب العزت میں توبہ و استغفار کرے اور آئندہ جھوٹی قسم کھانے سے اجتناب کرے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:۔
"عن عمران بن حصین رضي اللّٰه عنه قال : قال النبى صلی اللّٰه علیه وسلم: من حلف علی یمین مصبورة کاذباً ، فلیتبوأ بوجهه مقعدہ من النار "حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: جو شخص جان بوجھ کر جھوٹی قسم اٹھائے گا وہ جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر جانے کے لئے تیار رہے۔
(سنن ابی داؤد:کتاب الایمان والنذور، باب التغلیظ في الیمین الفاجرة،رقم الحدیث ٣٢٤٢)

کتاب الآثار میں ہے:
"الیمین یمینان : یمین تکفر ، و یمین فیها الاستغفار ، فالیمین التي تکفر فالرجل یقول : واللّٰه ! لأفعلن ، والتي فیها الأستغفار ، فالذي یقول : واللّٰه لقد فعلت "اھ
(کتاب الأثا ر ص ۱۴۱ : باب من حلف وهو مظلوم ، مطبوعہ کراچی )

در مختار مع رد المحتار میں ہے: "ولا یقسم بغیر اللّٰه تعالیٰ کالنبى و القرآن و الکعبة ، قال الکمال : ولا یخفی أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فیکون یمینًا ” اھ(در المختار مع رد المحتار ج ۵ ص ۴۸۴: کتاب الأیمان ، مطلب فی القرآن مطبوعہ زکریا)

تنویر الابصار مع در المختار میں ہے: "وهى غموس ، تغمسه فى الإثم ثم النار ، وهى کبیرة مطلقًا إن حلف علی کاذب عمدًا ، کواللّٰه ما فعلت کذا عالماً بفعله یأثم بها فتلزمه التوبة ” اھ(تنویر الأبصار مع الدر المختار ج ۵ ص ۴۷۴ : کتاب الأیمان ، مطلب فی حکم الحلف بغیرہ تعالیٰ مطبوعہ زکریا)والله تعالیٰ اعلم

(۴) کسی عام مسلمان کو بھی گالی دینا ناجائز و حرام ہے اہل بیت اطہار کا تو رتبہ ہی بہت بلند ہے کہ ہر مسلمان پر ان کی تعظیم لازم ہے انہیں گالی گلوچ کرنا تو اور بھی زیادہ برا ہے،بلکہ بحکمِ فقہا سادات کرام اور علما کی توہین کرنا اور انہیں برا بھلا کہنا کفر ہے۔ عبد الغنی پر لازم ہے کہ سادات کرام سے معافی مانگے، اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے الله رب کی بارگاہ میں توبہ صادقہ کرے۔ اور آئندہ ایسی نازیبا حرکات سے بچنے کا پختہ عہد کرے۔

فرمان باری تعالی ہے:
"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ”(پارہ ٢۵، آیت نمبر:۲۳، سورة الشورى)
ترجمہ کنز الایمان:۔ تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

حضور صدر الافاضل فخر الامثال علامہ نعیم الملة والدين قدس سره العزيز رقمطراز ہیں:
"حضور سید عالم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کی محبت اور حضور کے اقارب کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے ( تفسیر خزائن العرفان مع کنز الایمان ص۷۰۳)

حدیث شریف میں ہے:
"من لم یعرف حق عترتی فھو لاحد ثلاث اما منافقا واما لزنية واما لغير طهور "(شعب الايمان: رقم الحديث:۱۶۱۴) جو میری اولاد اور انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین علتوں سے خالی نہیں یا منافق ہے یا ولد الزنا ہے یا حیضی بچہ ہے۔

مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر میں ہے: ” الاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر ومن قال لعالم عویلم او لعلوی علیوی قاصدا به الاستخفاف كفر”(ج٢ ص۵۰۹) سادات کرام اور علما کی تحقیر کفر ہے جس نے عالم کی تصغیر کرکے عویلم کہا یا علوی کو علیوی کہا تو اس نے کفر کیا۔

فتاوی رضویہ میں ہے:
"سادات کرام کی تعظیم فرض ہے۔اور ان کی توہین حرام بلکہ علمائے کرام نے ارشاد فرمایا جو کسی عالم کو مولوی،یا کسی کو میروا،بر وجہ تحقیر کہے کافر ہے(ج ٢٢ ص٤٢٠/ دعوت اسلامی)والله تعالیٰ اعلم

(۵)عبد الغنی کا مسجد میں روپے دیکر واپس مانگنا ہرگز درست نہیں جبکہ وہ روپے اس کی منشاء کے مطابق مسجد کے کام میں لگا دیے گئے،

فتاوی رضویہ میں ہے:
"دے کر پھیرنا شرعا منع ہے نبی صلی الله تعالٰی علیه وسلم نے اس کی مثال ایسی فرمائی جیسے کتا قے کرکے چاٹ لیتا ہے والعیاذ بالله تعالى والمسائل كلها مبسوطة في الدر المختار وغيره من الاسفار صحيح بخارى وصحيح مسلم میں ہے حضور پر نور صلی الله تعالٰی عليه وسلم نے فرمایا: ليس لنا مثل السوء العائد فی ھبته كالعائد يعود في قيئه روياه عن ابن عباس رضى الله تعالى عنهما سنن اربعہ میں ہے حضور اقدس سید العالمین صلی الله تعالٰی عليه وسلم نے فرمایا: مثل الرجل يعطى العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب اكل حتى اذا شبع قاء ثم رجع فى قيئه رووه عن ابن عمروابن عباس رضى الله تعالى عنهم وصححه الترمذي”( ج ۸ ص ۴۵)

مسجد اور اسی طرح قرآن کریم وغیرہ شعار دینی کے بارے میں بیہودہ الفاظ کہنا ان کی توہین ہے اور یہ کفر ہے۔ عبد الغنی پر لازم ہے کہ توبہ و تجدید ایمان کرے اگر بیوی رکھتا ہو تو تجدید نکاح بھی ہے۔

شرح فقه اکبر میں ہے:
"وفی تتمة الفتاوی : من استخف بالقرآن او بالمسجد او بنحوہ ممایعظم فی الشرع کفر اھ(ص:١٦٧)۔

مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبحر میں ہے: "إذا أنكر آية من القرآن و استخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوه مما يعظم في الشرع أو عاب شيئا من القرآن أو خطئ أو سخر بآية منه كفر اھ(ج ٢ ۵۰۷)۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمدا لكنه لم يعتقد الكفر قال بعض أصحابنا لا يكفر و قال بعضهم : يكفر، و هو الصحيح عندي كذا في البحر الرائق۔ و من أتى بلفظة الكفر ، و هو لم يعلم أنها كفر إلا أنه أتى بها عن اختيار يكفر عند عامة العلماء خلافا للبعض ، و لا يعذر بالجهل كذا في الخلاصة : الهازل ، أو المستهزئ إذا تكلم بكفر استخفافاً و استهزاءً و مزاحاً يكون كفرا عند الكل ، و إن كان اعتقاده خلاف ذلك.الخ (ج٢ ص ٢٧٦)

حاشیہ فتاوی امجدیہ میں ہے: جس چیز کے کفر ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہو، اس پر احتیاطاً تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم ہے”(فتاوی امجدیہ ج ٢ص١٠) والله تعالیٰ اعلم

صورت مسؤلہ میں عبد الغنی نامی شخص کے بارے میں جو امور قبیحہ ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض کی بنیاد پر وہ سخت فاسق وفاجر حرام کبیرہ کا مرتکب ہے اور بعض کی بنیاد پر بحکمِ فقہاء کفر کا مرتکب ہے لہذا شخص مذکور پر لازم ہے کہ توبہ وتجدید ایمان کرے اگر بیوی رکھتا ہو تو تجدید نکاح بھی کرے اور جلد قبولیت توبہ کی امید پر اپنے مال میں سے کچھ صدقہ وخیرات بھی کرے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اَلَمْ يَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَاَنَّ اللّـٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْـمُ”
ترجمہ کنزالایمان۔کیا انہیں خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور صدقے خود اپنے دست قدرت میں لیتا ہے اور یہ کہ الله ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔( پارہ ۱۱، آیت:١٠۴، سورة التوبة) شخص مذکور اگر مذکورہ احکام شریعہ پر عمل پیرا نہیں ہوتا تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کا مکمل بائیکاٹ کریں نہ تو اس کے ساتھ کھائیں پئیں اور نہ ہی نشست و برخاست رکھیں۔والله تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ مدرس دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر. ۱۴/محرم الحرام ١٤٤٥ھ مطابق ٢/اگست ٢٠٢٣ء

الجواب صحيح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

Leave a Reply