جس پر نہانا فرض ہے وہ قرآن پاک کِن صورتوں میں پڑھ سکتا ہے؟
السلام علیکـم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
بعد سلام عرض ہے کہ
ایک شخص زید ہے جس کا کہنا ہے کہ قران مجید حالت ناپاکی میں نہیں پڑھ سکتے
لیکن بکر کا کہنا ہے کہ تلاوت کی نیت نہ ہو تو قران مجید پڑھ سکتے ہیں اس لیے کہ زبان ناپاک نہیں ہوتی۔
کس کی بات درست ہے؟ مدلل جواب دیں۔ مہربانی ہوگی۔
عمران علی مہراجگنج
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــ
فقیہ فقید المثال اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے خاص اس مسئلہ میں :”ارتفاع الحُجُب عن وجوہ قراءة الجُنُب” کے نام سے ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، جس میں فقہی فروع وجزئیات اور اپنی خدا داد فقہی بصیرت اور گراں قدر ابحاث کی روشنی میں درج ذیل منقّح حکم تحریر فرمایا ہے:
” اور حاصل حکم یہ ٹھہرا کہ بہ نیت قرآن ایک حرف بھی روا نہیں اور جو الفاظ اپنے کلام میں زبان پر آجائیں اور بے قصدِ موافقت اتفاقاً کلماتِ قرآنیہ سے متفق ہوجائیں زیر حکم نہیں اور قرآن عظیم کا خیال کرکے بے نیتِ قرآن ادا کرنا چاہے تو صرف دو صورتوں میں اجازت۔
ایک یہ کہ : آیاتِ دعا وثنا بہ نیتِ دعا وثنا پڑھے۔
دوسرے یہ کہ: بحاجتِ تعلیم ایک ایک کلمہ مثلاً اس نیت سے کہ یہ زبانِ عرب کے الفاظِ مفردہ ہیں کہتا جائے اور ہر دو لفظ میں فصل کرے، متواتر نہ کہے کہ عبارت منتظم ہوجائے ،کما نصوا علیہ۔ ان کے سوا کسی صورت میں اجازت نہیں”
(فتاوی رضویہ ج١ص٢٣١)
اس اقتباس سے واضح ہوا کہ بکر کا بالعموم یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ جن کو نہانے کی حاجت ہو وہ "تلاوت کی نیت نہ ہو تو قرآن مجید پڑھ سکتے ہیں۔کیوں کہ مذکورہ بالا دو صورتوں کے علاوہ، مثلاً ایسے لوگوں کا قرآن پاک کی آیتیں بیانِ قصص کی نیت سے پڑھنا، یوں ہی آیاتِ قرآنیہ کو شفا کی نیت سے پڑھنا جائز نہیں ہے۔۔ہاں! شفا یابی کے لیےخاص ذکر و دعا کی آیتیں ذکر و دعا کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں۔افاد کل ذلک الامام العلام رحمہ اللہ المنعام فی رسالتہ التی ذکرناھا، وللاستزادة من الفروع والابحاث الفقہیة الرائعة یراجع الیہا۔
نیز بکر کا دلیل کے طور پر یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ” زبان ناپاک نہیں ہوتی” اس لیے کہ جنابت جو نجاستِ حکمیہ ہے اس کا محل زبان بھی ہے۔ جیسا کہ غسل میں کلی فرض ہونے کے مسئلہ سے عیاں ہے۔ نیز بکر کی یہ دلیل خود اس کے دعوی کے خلاف ہے، اس لیے کہ جب بقولِ بکر زبان ناپاک ہی نہیں ہوتی تب تو تلاوت کی نیت سے بھی قرآن پڑھنا جائز ہونا چاہیے؟حالاں کہ وہ خود بھی اس کا قائل نہیں ہے۔
بہر حال حکم وہی ہے کہ نہانے کی حاجت والوں کو بہ نیتِ قرآن ایک کلمہ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔(ہاں! بول چال میں بعض کلمات، یا آیت بے قصدِ قرآن، کلماتِ قرآنیہ یا آیت کی شکل پر اگر زبان پر جاری ہوجائیں تو ان پر حکم نہیں ہے، جیسے حدیث بیان کرتے ہوئے کسی جنب نے کہا کہ "محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”۔یہاں کلمات "محمد رسول اللہ” قرآن پاک کی ایک آیت کے ٹکڑے سے متفق ہیں)
اور حاجتِ اکملیتِ ذکر و دعا کے پیشِ نظر آیاتِ ذکر و دعا کو ذکر و دعا کی نیت سے پڑھنے کی شرع کی طرف سے اجازت ہے۔یوں ہی حاجتِ تعلیم کے لیے ایک ایک کلمہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی من جانبِ شرع اجازت ہے ۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری، خادم درس و افتاء: دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔
٣/جمادی الآخرہ ١۴۴٣//٧/جنوری ٢٠٢٢ء